یہ راکھ! از (وسعت اللہ خان)

قمراحمد

محفلین
یہ راکھ!
091202130520_wusat_blog_pic.jpg

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو بلاگ

فلائٹ ای ڈی ٹو زیرو ٹو کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر کریش ہونے والے طیارے کی قسمت ہے۔ ایک سو باون لاشیں چند کلومیٹر کے دائرے میں بکھر گئیں مگر ملبہ دور دور تک جا گرا۔

مارگلہ سے اڑنے والے سیاہ تیز دھار دھاتی ٹکڑوں نے کراچی میں ائر ہوسٹس حنا عثمان کے گھر کی چھت پھاڑ دی۔ چار روز پہلے شادی کرنے والے محمد اویس اور عروسہ کے بیڈ روم کو آگ لگ گئی۔ حیدرآباد میں پریم چند کی ڈیوڑھی زمیں بوس ہوگئی۔ دیر میں محمد شفیع کا حجرہ پہاڑی سے پھسل کر دریا میں جاگرا۔ موگا دیشو میں سماتر بشیر کی ماں کے سر میں ٹکڑا پیوست ہوگیا اور امریکی فٹ بالر میشا داؤد کے لان کی کیاریوں سے دھواں اٹھنے لگا۔

گیلے پہاڑوں کے درمیان سے سفید دھواں اٹھتے ہی مارگلہ کی ترائی میں بدحواسوں کا میلہ سج گیا۔ آناً فاناً سٹال کھڑے ہونے لگے۔

معلومات کے خریداروں کا اس قدر ہجوم کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔
یہ پمز ہسپتال کا سٹال ہے۔ جہاں تسلیوں کے گولے گنڈے بیچے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد یہاں اعضا سے بھری گٹھڑیاں لائی جاویں گی، بدحواس لوگوں کے سامنے کھول دی جائیں گی اور تقسیم ہوجائیں گی۔ وہ نیشنل ڈز آسٹر مینجمنٹ سیل کا اطلاعاتی سٹال ہے جس پر موٹا موٹا لکھا ہوا ہے کہ برائے کرم ریسکیو ہیلی کاپٹرز کی پروازوں کی تعداد کے علاوہ ہم سے کچھ نہ پوچھا جائے۔ برابر میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کیبن ہے جہاں کاؤنٹر پر کھڑے رضاکار انتظار کر رہے ہیں ان احکامات کا کہ انہیں کیا بیچنا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے سامنے پولیس، فوج اور رینجرز کا مشترکہ ٹینٹ لگا ہوا ہے مگر شائد انہیں کوئی بتانا بھول گیا ہے کہ میلے میں کسے روکنا ہے اور کسے داخل ہونے دینا ہے۔ بدحواس لوگوں اور رضاکاروں کی باوردی لوگوں سے تکرار کا سب سے زیادہ شور یہیں سے اٹھ رہا ہے۔

میلے کے عین وسط میں وزیرِ داخلہ رحمان ملک خالی کنستر پر کھڑے منجن بیچ رہے ہیں، 'مہربانو قدر دانو! آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ پانچ لوگ زندہ بچ گئے ہیں۔ معاف کرنا میں کہہ رہا تھا کہ پانچ لوگ زندہ مل گئے پھر وہ مرگئے'۔

کچھ فاصلے پر وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ میگا فون پکڑے آموں کی دو خالی پیٹیاں جوڑ کر کھڑے ہیں۔ 'بھائیو اور بہنو! اس مسخرے کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ یہ عادت سے مجبور ہے۔ میں خوش خبری دیتا ہوں کہ بلیک باکس مل چکا ہے۔ تھوڑی دیر میں بس عقدہ کھلنے والا ہے۔ معاف کرنا میرا مطلب ہے کہ بلیک باکس نہیں ملا ۔۔۔ ہم پھر بھی عقدہ کھولے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے'۔

میلے کے بالکل شروع میں کچھ ایمولینسیں اور ان سے کہیں زیادہ وہ ویگنیں پارک ہیں جن پر ڈشیں نصب ہیں اور سیاہ، لمبی لمبی اور موٹی تاریں ویگنوں سے سانپوں کی طرح نکل نکل کر اس خالی میدان تک رینگ رہی ہیں جہاں میڈیا کا تیز رفتار رولر کوسٹر کبھی بلندی پر جا رہا ہے تو کبھی تیزی سے نیچے آ رہا ہے تو کبھی بل کھاتا ہوا زن سے گزر رہا ہے۔

رولر کوسٹر پر کھچا کھچ بیٹھنے والوں کے جوش و خروش کا اندازہ ہا ہو کے فلک شگاف زیرو بم سے لگایا جاسکتا ہے۔ سب رولر کوسٹر سواروں کے سینے پر بیج لگا ہوا ہے۔ شاہد مسعود ایوی ایشن ایکسپرٹ ، حامد میر سابق جمبو پائلٹ، نصرت جاوید ریڈیو آپریٹر، طلعت حسین ائرکموڈور، مہر بخاری فلائنگ انسٹرکٹر، مبشر لقمان فلائٹ مینٹیننس انجینیر، کامران خا۔۔۔

رات ہو چلی ہے۔ دن بھر کے تھکے ہارے بدحواس لوگ برساتی اندھیرے میں رفتہ رفتہ گم ہو رہے ہیں۔ ایک آدھ کے سوا باقی سٹالز والے اپنا اپنا مال پیٹیوں میں واپس رکھ رہے ہیں۔ صبح تک پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کل اس میدان میں پندہرواں کل پاکستان فضائی حادثہ فیسٹیول منعقد ہوا تھا۔ صرف ٹین کا ایک کنستر، آموں کی دو خالی پیٹیاں اور بدحواسوں کی سسکیوں کا کچرا رہ جائے گا۔

سینکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر پرے ائر ہوسٹس حنا عثمان، نویلے دولہا اویس، پریم چند، محمد شفیع، سماتر بشیر اور میشا داؤد کے گھر سمیت لگ بھگ ڈیڑھ سو چھتوں پر صبر کی راکھ اترنا شروع ہوجائےگی۔ آہستہ، آہستہ ، آہستہ ۔۔۔

یہ راکھ اس رات کا ثمر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
 
Top