یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے، میر تقی میر


Page_44.jpg
میر تقی میر کا نام محمد تقی تھا۔ 1722 - 23 میں آگرہ میں ولادت ہوئی۔ میر کے والد کا نام محمد علی تھا جو انتہائی صوفی منش انسان تھے۔ دنیا سے ان کو کوئی سروکار نہ تھا۔ صوفیا کی خدمت کرنے میں اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ ان کے تقویٰ اور زہد کو دیکھ کر انہیں علی متقی بھی کہا گیا۔ میر تقی میر کے والد نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی خان آرزو کی بہن سے ہوئی تھی اور دوسری بیوی میر کی والدہ تھیں۔ ان کے بطن سے تین اولاد تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام محمد حسن تھا۔ میر کے دادا فوج میں ملازم تھے اور آگرہ کے نزدیک تعینات تھے۔ اس طرح میر کو جہاں دادا سے شجاعت ملی وہیں والد محترم کی یہ خواہش تھی کہ ان کا بیٹا انہیں کے جیسا ہو اور انہیں کی راہ پر چلے۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ علی متقی جب اپنے شیر خوار کو گود میں لے کر ٹہلتے تو کہا کرتے کہ بیٹا عشق کرو کیونکہ دنیا میں عشق کے سوا کچھ نہیں اور معصوم کے چہرے کی زردی کو علامت عشق سمجھتے اور یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ ان کو خدا نے ایک ایسی اولاد دی ہے جس کو عشق کی نعمت سے نوازا ہے۔
میر تقی میر کے ایک منہ بولے چچا تھے جن کو امان اللہ کہا جاتا تھا۔ وہ میر کے والد کے بہت مرید تھے اور میر سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے۔ میر کے والد امان اللہ کی مریدی دیکھ کر ان سے بے حد خوش رہتے تھے اور انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ امان اللہ بھی میر کو لے کر صوفیوں کی خانقاہوں پر حاضری دیتے تھے۔ میر کی سوانح لکھنے والوں کا یہ ماننا ہے کہ میر کے مزاج میں بد دماغی کی حد تک جو بے نیازی تھی اس میں ان خانقاہوں کی تربیت کا بڑا حصہ تھا۔
میر اپنی عمر کے گیارہ سال مکمل کرتے کہ اس سے قبل والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ منہ بولے چچا سے شفقت کی امید تھی مگر بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ وہ بھی نہ رہے۔ اب میر بالکل بے سہارا تھے۔ بس ایک سوتیلے بھائی محمد حسن سے حسن سلوک کی امید تھی، تو مصیبت میں جس طرح سایہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے اسی طرح انہوں نے بھی مکمل طور پر میر سے آنکھیں پھیر لیں۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے میر نے آگرہ سے دہلی کا سفر کیا اور کچھ دنوں تک انتہائی کسمپرسی میں گزارا۔ بالآخر صمصام الدولہ نے ایک روپیہ روز وظیفہ مقرر کر دیا مگر کچھ ہی دنوں بعد صمصام الدولہ کا انتقال ہو گیا اور وظیفہ ختم ہو گیا۔ روزی نہ ملنے سے مایوسی آئی اور وہ آگرہ لوٹ گئے۔ اب دوبارہ دہلی کا رخ کیا اور خان آرزو کی خدمت میں حاضر ہوئے جو ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن کے ماموں تھے۔ ان کی توجہ سے میر نے بہت کچھ سیکھا۔ نکات الشعراءمیں انہوں نے انہیں ’استاد پیر و مرشد بندہ‘ کہا ہے۔ سعادت اور امروہوی کے مشورے پر شعر تو پہلے ہی کہنے لگے تھے مگر خان آرزو کی توجہ نے ان کے فن شعر گوئی میں نکھار پیدا کیا اور وہ محمد تقی سے میر بن گئے۔ میر کا خود بیان ہے کہ حافظ محمد حسن نے اپنے ماموں کو بھڑکا دیا۔ اس نے انہیں خط لکھا کہ ”محمد تقی فتنہ روزگار ہے۔ دوستی کے پردے میں اس کا خاتمہ کر دینا چاہئے“۔
اس کے بعد خان آرزو ان سے بدسلوکی کرنے لگے اور ایک بار یہ بدسلوکی اتنی بڑھی کہ میر کو کھانا چھوڑ کر گھر سے نکلنا پڑا۔ کسی طرح میر نے انتہائی بے بسی اور کسمپرسی کی حالت گزاری اور پھر کسی شخص کے توسط سے رعایت خاں کے یہاں پہنچ گئے۔ رعایت نے ان کو اپنا رفیق بنا لیا۔ مگر میر کی طبیعت میں جو چیز تھی اس نے انہیں وہاں بھی نباہ نہ ہونے دیا۔ یعنی نازک مزاجی اور حساسیت۔ آخر کار میر کو وہاں سے بھی جانا پڑا اور انہوں نے امیر جاوید خاں کے یہاں ملازمت اختیار کر لی۔ میر کی زندگی میں جس وقت یہ حالت تھی اس وقت دہلی کی بھی حالت بدلنے والی تھی اور ہوا بھی یہی کہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کر دیا اور حالات اس قدر مخدوش ہوئے کہ دہلی کی اجڑنے کی نوبت آ گئی۔ بھلا دہلی میں رہ رہے میر پر اس کا اثر کیوں نہ ہوتا۔ چنانچہ میر کو بھی دہلی چھوڑ کر لکھنو¿ کا سفر کرنا پڑا۔ وہاں آ کر انہوں نے نواب آصف الدولہ کے یہاں ملازمت کی اور تقریباً 31 برس مزید گزارنے کے بعد 1810 میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
میر نے فارسی میں ’نکات الشعرائ‘ نام سے ایک تذکرہ 1165ءمیں لکھا جو اردو کا سب سے پہلا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دو تصانیف ہیں ’ذکر میر‘ اور ’فیض میر‘ جو فارسی میں ہیں۔
میر کے چھ دیوان ہیں۔ انہوں نے غزلوں کے علاوہ قصیدے، مرثیے اور سلام بھی لکھے۔ ان مثنویات میں خصوصاً ’دریائے عشق‘ اور ’شعلہ عشق‘ بہت مشہور ہیں۔ میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ ان کے معاصرین ہوں یا بعد کے شعرائ، سب میر کی عظمت کے آگے سر نگوں ہوئے ہیں۔
میر کی عظمت کا راز شاید یہی ہے کہ انہوں نے سیدھے سادے انداز میں اور بول چال کی زبان میں اپنے درد کا اظہار کر دیا اور جس کسی نے انہیں پڑھا، اپنے کرب کو ان کے کرب کے مماثل پایا۔ اس لئے جس کسی کے بھی دل میں درد تھا میر ان کا محبوب شاعر بن گیا۔ اسی لئے کہا گیا کہ ”میر نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا“۔
میر کی غزلوں میں قصہ گوئی کا سا عنصر ہے اور ان کا تصور غم ان کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے۔
میر کی شاعری میں جو تشبیہیں اور استعارے استعمال کئے گئے ہیں وہ اتنے پرکشش ہیں کہ دلوں کو مسخر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں موسیقیت ہے اور ان کا نرم لہجہ درد سے نڈھال انسان کو تھپکیاں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں خود کلامی پائی جاتی ہے۔ گویا شاعر خود سے باتیں کر رہا ہو۔ میر کے یہاں استفہام یعنی سوال کا انداز بہت لطف دیتا ہے اور تقریباً دو سو برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے اشعار دل کو تڑپا دیتے ہیں۔ جیسے

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
میر کے یہاں بے یقینی کی کیفیت ہے اور قاری کو اس کا فیصل بناتے ہیں۔ مثلاً
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میر بہت آسان زبان میں بہت بڑی باتیں کہتے ہیں جو دل کو محظوظ بھی کرتی ہیں اور حسن کو مغرور بھی کرتی ہیں۔ مثلاً
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
---
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے میر کے کلام میں جادو کا اثر ہے اور ہمیشہ یہ تاثیر باقی رہے گی۔
میر کی زندگی، ان کی شاعری اردو ادب کا ایسا بے بہا سرمایہ ہیں جس سے رہتی دنیا تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

غزلیں
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا
شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈھا بھی تو نہ پائیے گا
نہ ہوئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باو¿ کھائیے گا
کہئے گا اس سے قصّہ¿ مجنوں
یعنی پردے میں غم بتائیے گا
اس کے پاو¿ں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا
اس کے پابوس کی توقّع پر
اپنے تئیں خاک میں ملائیے گا
شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا
اپنی ڈیڑھ اینٹ کی ج±دا مسجد
کسو ویرانے میں بنائیے گا
— —
ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھئے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
بوئے گ±ل اور رنگِ گ±ل، دونوں ہیں دل کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھئے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
نالے کِیا نہ کر سنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں
چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں
ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں
آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں
ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں
نازِ ب±تاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں
مضمون بشکریہ​
 
Top