یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ہے !

x boy

محفلین
یہ دور اپنے ابن تیمیہ کی تلاش میں ہے !
گھوڑے جب زمین پر ٹاپیں مارتے تو گردوغبار کا ایک بادل سا اٹھتا ، نعروں کی گونج سے آسمان کا سینہ چیرا جارھا تھا ،سخت کوش ،تنومند تاتاری کمانیں کھینچے ھوئے تھے عربی گھوڑوں پر ان کہ کسے ھوئے بدن ایک عجب منظر پیش کرتے جس کو دیکھنے سے ہی دلوں پر ھیبت طاری ھوجاتی ،کثرت تعداد ، جنگی مہارت ، دلیری و شجاعت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا!
شامی و مصری مسلمان لشکریوں کہ دلوں میں ایک وحشت کا عالم تھا یہ لشکر جو کہ تاتار کہ جم غفیر کا سامنا کرنے کہ لیے بڑی مشکل سے جمع کیا گیا تھا اس کو اپنی جیت کا یقین نہ تھا ! مگر ایک پنتیس چالیس سال کا نحیف سا شخص جس کہ چہرے پر ایک عجب سی چمک تھی بجلی کی کوندے کی طرح لپک رھا تھا !
اس پر نظر پڑتے ہی لشکریوں کا اضطراب جیسے دور سا ھوجاتا ! وہ ہر دستے کہ سامنے سے گھوڑا دوڑاتا ھوا گزرتا اور قسما و حلفا کہتا " کہ آج فتح تمھاری ھوگی"۔ اس قید یافتہ ،نحیف نراز شخص کہ وجود سے ایک عجب وقار جھلکتا ،اس کہ الفاظ میں عجب جادو تھا ، جنگ کہ لیے تیار ہر دستہ اس کہ قریب آکر درخواست کرتا اے شیخ اب تیمیہ آیئے ھمارے ساتھ کھڑے ھوں ، دیکھیں ہم جانثار ھیں آپ کی حفاظت بخوبی کریں گئیں ، مگر اس پر ایک عجب حال طاری تھا اتباع سنت کا امام کہتا نہیں ، رسول اللہ کی سنت ھے کہ بندہ اپنے قبیلے کہ ساتھ ہی کھڑا ھو !
اس کو ہر بات کی فکر تھی ، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آج شقحب کہ میدان میں شکست کا مطلب ،مسلمانوں کی عظیم بربادی ھے ، وہ اس لشکر کا امیر نہ تھا ،مگر لشکر کا عسکری جزبہ اسی کا مرھون منت تھا ،رات کی خاموش تنہایئوں میں یہ اللہ کہ سامنے گڑگڑاتا رھا تھا کہ "مالک لاج رکھنا" ۔ یہ لشکر جو کہ تاتاریوں کی ھیبت سے لرزاں تھا اسی کی مساعی کی وجہ سے اکھٹا ھوا تھا
جنگ کا مرحلہ قریب آرھا تھا ، تاتاریوں کا لشکر صف بندی کرچکا تھا ، رمضان کا مہنیہ بھی کفر و اسلام کی اس جنگ کو دم سادھے دیکھ رھا تھا ، ابن تیمیہ نے اپنے گھوڑے کو لشکر کا چکر مکمل کرنے کہ لیے پھر ایڑ لگائی اس دفعہ ان کہ ہاتھ میں کجھوریں تھیں جن کو وہ اہل لشکر کہ سامنے کھاتے جاتے اور سنت یاد دلواتے جاتے کہ دشمن کہ مقابلے میں اگر کمزوری کا خدشہ ھے تو روزہ کھول لو ! آج اگر کسی بھی جسمانی کمزوری کی وجہ سے کفر غالب آگیا تو روزے کا فائدہ نہ ھوگا!
معرکہ شروع ھوگیا ،تاتاری پے در پے آگے بڑھے ،ان کہ پہلے حملے نے ہی مسلمانوں کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا ، بزدل پیٹھ دکھا کر بھاگے ، یہ حالت دیکھ کر مصر کہ حکمران ناصر بن قلاوون نے حکم دیا کہ اس کہ گھوڑے کو زنجیروں سے باندھ دیا جائے ۔ اور اللہ کہ ساتھ میدان جنگ میں موت تک لڑنے کا عہد کیا ۔امیر حسام الدین دیوانہ وار آگے بڑھے اور تاتاریوں کی صف چیرتے ھوئے شہید ھوگئے ،استاد دارالسلطان نے آٹھ امراءسمیت موت پر بیعت کی اور اور اپنا وعدہ پورا کردیا ،صلاح الدین بن ملک کی شان ہی نرالی تھی امیر ھونے کہ باوجود سپاہیوں سے بھی آگے جا کر لڑ رھے تھے !
شامی لشکر میں ابن تیمیہ کی شان ہی نرالی تھی ،یہ قلم و تقریر کا مجاہد آج تلوار ہاتھ میں تھامے شہادت کی تلاش میں سرگرداں تھا ! بار بار اپنے شامی ھمسازوں کو کہتا کہ مجھے اس جگہ لے چلو "جہاں پر موت ناچ رھی ھو" شامی جانباز اس کو دیکھ کر ھمت پکڑتے شاھیںوں کی طرح جھپٹتے اور چیتوں کی طرح دشمن کہ اجسام میں اپنی تلواریں پیوست کردیتے ،معلوم نہیں کہ ابن تیمیہ نے اس دن کیا نعرے لگائے ھوں گئیں مگر اس کا اندازہ ضرور ھے کہ جب یہ مرد حق نعرہ لگا کر حملہ آور ھوتا ھوگا تو ایک جم غفیر لیبیک کہتا ھوا شیر کی طرح حملہ کرتا ھوگا!
علماء و امرائے اسلام کی یہ بہادری دیکھ کر فوجیوں کہ دل ٹہر گئے ،شیر کی پلٹے اور مناجیق کے پتھروں کی طرح تاتار کہ اوپر برس گئے ، شام سے پہلے جنگ کا فیصلہ ھوگیا ، تاتار کہ خاقان ، قازان کو جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بھی واصل جھنم ھوا !!!

میرے دور کے ابن تیمیہ کہاں ہیں جو کہ پکار کر کہہ رہے ہوں مجھے جنگ میں اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچ رھی ھو"
از: ابوعبید
 

x boy

محفلین
توحید تو یہ ھے کہ خدا حشر میں کہہ دے !
یہ "بندہ " دو عالم سے خفا میرے لئے تھا !

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ھے ،، و ھوالذی فی السماء الہ، و فی الارضِ الہ ۔۔۔

یہ اللہ وھی ھے جو آسمان میں بھی الہ ھے اور زمین میں بھی الہ ھے ،، پھر آسمان والوں میں اتنا شکتی مان ،طاقتور اور یکتا کیوں ھے کہ وھاں اسے کسی اور کو ٹھیکہ دینے کی ضرورت نہیں ،،،،،، اور زمین پر وہ بطور الہ اتنا کمزور کیوں ھو جاتا ھے کہ اپنا سب کچھ فرنچائز کر دیتا ، اور ڈپو تقسیم کر دیتا ،زمین پر وہ Manpower سپلائی کمپی کھول لیتا ھے کہ نو ماہ لگا کر انسان بنائے اور پھر اسے کسی خواجہ کو ٹھیکے پر دے دے ،، اسے کشکول دے کر کسی اور داتا کے دروازے پہ کھڑا کر دے ؟؟

وهو الله في السماوات وفي الأرض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون وما تأتيهم من آية من آيات ربهم إلا كانوا عنها معرضين ( الانعام )

رب کعبہ کی قسم سچ اور حق گلہ کیا ھے میرے پروردگار نے کہ ،،

-: { وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسماوات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون } ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کا حق بنتا تھا جبکہ زمینیں ساری اس کے قبضہ قدرت میں ھونگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے دائیں ھاتھ پہ لپٹے ھونگے ، وہ پاک ھے اور بلند ھے ان کے ٹھہرائے گئے شریکوں سے ،،

ان لوگوں کا دوسرا خناس یہ ھے کہ ان کے بزرگوں نے اللہ کی اتنی عبادت کر دی ھے کہ نہ صرف اس کا حق ادا کر دیا ھے بلکہ اللہ پر قرض بھی چڑھا دیا ھے ،، اب وہ مقروض اللہ ان کی ھر بات ماننے پر مجبور ھے ،، اور یہ بزرگ اپنا ڈلوایا ھوا بیلنس اپنے چڑھاوے چڑھانے والوں کو ایزی لؤڈ کرتے رھتے ھیں ،،،، جبکہ اللہ پاک کی نعمتوں کا نہ تو احصاء ممکن ھے اور نہ ھی ان کا بدلہ دیا جا سکتا ھے ، ساری انسانیت سجدے میں پیدا ھو ،، کروڑوں سال سجدے میں ھی پڑی رھے اور اسی حال میں مر جائے تب بھی وہ عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتی اور نہ اللہ کی نعمتوں کا بدلہ دے سکتی ھے ،، وہ تمہارے بزرگ بھی اللہ کے بندے تھے اور اپنی ذات کے ذمہ دار تھے ،حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت ان کے بیٹے کے کام نہ آئے گی ،، کیا لوگ اسی قرآن میں نہیں پڑھتے کہ " بچو اس دن سے کہ جس دن کوئی جان دوسری جان کی طرف سے بدلہ نہیں دے گی اور نہ اس سے سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے جرمانہ قبول کیا جائے گا ،، ؟
{ وَاتَّقُوا يَوْماً لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئاً وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ } البقرة / 48

وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ(123-سورة البقرة)

اصل مسئلہ یہ ھے کہ قرآن آج مسلمان کا ریفرنس رھا ھی نہیں ھے ، وہ قصے کہانیوں کا مسلمان بن کر رہ گیا ھے ،، اور قرآن ثواب بنانے کی مشین ،،،،،،،،،
 
Top