احسان دانش یہ بجا کہ حسن ہی حسن ہے مرے گرد و پیش

فہد اشرف

محفلین
غزل

یہ بجا کہ حسن ہی حسن ہے مرے گرد و پیش مگر نہیں
تری آرزو کی حُدود میں کسی آرزو کا گزر نہیں

وہ کلیم تھے! جو بہل گئے تری برق زیرِ نقاب سے
جو تجلیوں سے ہو مطمئن وہ مرا مزاجِ نظر نہیں

یہ خیالِ خام نہ کر کبھی کہ غلامِ وقت ہے آدمی
تری زندگی کی بلندیاں یہ نظامِ شمس و قمر نہیں

یہ بجا کہ دِیر و حرم میں ہیں تری عظمتوں کی علامتیں
مرے دل کو اپنا یقیں دلا مجھے اعتبارِ نظر نہیں

یہ مراقبے، یہ مکاشفے، یہ مجاہدے، یہ مجادلے
تری منزلیں ہیں یہ واقعی؟ یامجھے شعورِ سفر نہیں

یہ ہجومِ لالہ چمن چمن، یہ گھٹا میں برق کا بانکپن
ہو سُجودِ شوق میں رُخ کدھر؟ تری جلوہ گاہ کدھر نہیں

مری جستجو کی رسائیاں ہیں ترے حدودِ جمال تک
مجھے دو جہاں سے غرض ہی کیا مری دو جہاں پہ نظر نہیں

مرے سجدہ ہائے دل و نظر ہیں خراب کب سے اِدھر اُدھر
مجھے اس قدر تو پتا چلے کہ کدھر ہیں آپ کدھر نہیں

یہ قیام گاہ کا ہے اثر کہ مآل پر بھی نظر نہیں
ہے سفر کا وقت قریب تر مگر اہتمامِ سفر نہیں

مجھے بزم خوب کہے تو کیا مجھے دادِ شعر ملے تو کیا
تری آرزو کا یہ کمال سب مری شاعری کا ہنر نہیں

یہ چمن یہ دانشِ بے نوا، جو گِھرا ہے ابر شرر فشاں
کسی سامری کا ہے شعبدہ، یہ سحر تو میری سحر نہیں
(فیس بک سے کاپی شدہ)
 
Top