یہودی نصارا کبھی مسلمانوں کے ہمدرد و اور دوست نہیں ہوسکتے

Muhammad Qader Ali

محفلین
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کےساتھ ابوموسی رضي اللہ تعالی سے روایت بیان کی ہے کہ
ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ : میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے ، وہ کہنے لگے تجھے کیا ہوا اللہ تجھے تباہ کرے کیا تونے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان نہيں سنا
اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 ) ۔
تونے ملت حنیفی پر چلنے والے کوحاصل کیوں نہ کیا یعنی مسلمان کاتب کیوں نہ رکھا ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کہا اے امیرالمومنین مجھے تواس کی کتابت چاہیے اوراس کے لیے اس کا دین ہے ، عمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
جب اللہ تعالی نے ان کی توھین کی اورانہیں ذلیل کیا ہے تومیں ان کی عزت واحترام نہيں کرونگا ، اورجب اللہ تعالی نے انہیں دور کیا ہے تومیں انہیں قریب نہیں کرونگا ۔
اورعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے خصوصاعیسائیوں کے بارہ کچھ اس طرح فرمایا : ان کی توھین کرو اوران پر ظلم نہ کرو انہوں نے اللہ تعالی کوایسا برا کہا ہے اس طرح کی گالی کسی اور بشروانسان نے نہيں دی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اورمیرے پاس یہ قرآن بطوروحی بھیجا گيا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کواوران سب کوجنہیں یہ قرآن پہنچے ڈراؤں۔ الانعام ( 19 ) ۔
 

ساجد

محفلین
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کےساتھ ابوموسی رضي اللہ تعالی سے روایت بیان کی ہے کہ
"صحیح سند " ؟۔
کیا کسی غیر مسلم کو نوکری پر رکھنا یا خود کسی غیر مسلم کی ملازمت کرنا نا جائز و حرام ہے؟۔
کیا نوکری کرنے کا مطلب دوستی کرنا ہوتا ہے؟۔
کیا صحابہ کرام ایک دوسرے کو "اللہ تجھے تباہ کرے" کے الفاظ سے مخاطب کیا کرتے تھے؟۔
کیا قرآن میں کہیں صریح انداز میں لکھا ہے کہ غیر مسلموں کی توہین کرو؟۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں جب فتوحات کا دائرہ دور دور تک پھیل گیا تو آپ نے کئی ایک غیرمسلم لوگوں سے مشورے بھی کیے اور ان کے مشورں پر عمل بھی کیا۔
 
اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہت راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 )

دوستی کرنا اور بات ہے اور ملازم رکھنا اور بات ہے
قران سے یہ بات تو واضح ہے کہ دوستی رکھنا منع ہے۔ مگر ورکنگ ریلیشن شپ کی تو گنجائش ہے
 

arifkarim

معطل
ان احادیث کی انہی تشریحات کی وجہ سے آج عالم اسلام پوری دنیا میں ذلیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو ان احادیث کو موجودہ دور کے لئے " اسلامی احکامات" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہی اسلامی "علماء" یہودی و نصاریٰ کے دریافت کردہ بم، بارود، اور دیگر ٹیکنالوجیز کو روزانہ استعمال کرتے نہیں تھکتے۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اول تو یہ کہ یہ مضمون میں نے "تراشے" جو مولانا تقی عثمانی کی لکھی ہوئی کتاب سے لی ہے۔ میں بہت سے علماء کرام کی عزت کرتا ہوں یہ ان میں سے ایک ہیں۔ مولانا صاحب نہ کہ دین اور حدیث کی کتابوں کے علم میں نمایا حیثیت رکھتے ہیں بلکہ دنیاوی علم میں بھی ماسٹر کرچکے ہیں۔
دوسری بات کہ یہود و نصارا سے دوستی کا مطلب کہ آپ ان میں اسطرح مل جاو کہ پانی شکر میں مل جائے کیونکہ یہ آپ کو اپنے طرف قائل کرلیں گے۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ کبھی بھی آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہونگے جب تک آپ ان کے دین میں داخل نہ ہوجاؤ، جیساکہ آج کسی ایسے انڈین سے سوالات کرو جو دین سے دور ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم عید بھی کرتے ہیں اور دیپاولی بھی مناتے ہیں عید میں وہ ہمارے گھر اور ہولی دیوالی میں ان کے گھر جاتے ہیں۔ جبکہ ان مسلمانوں کو بلکل علم نہیں کے یہ انکے دینی تہوار ہیں جسکا ہمیں منع فرمایا گیا ہے۔
فرمان بارى تعالى ہے:
{ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو كامل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت كو پورا كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں }المآئدۃ ( 3 ).
اور پھر شريعت اسلاميہ نے مسلمانوں كو كفار اور خاص كر يہود و نصارى كى تقليد اور نقالى كرنے سے منع فرمايا ہے، اور يہ نہى سب امور ميں عام نہيں بلكہ يہ اس ميں ہے جب وہ ان كے دينى امور اور شعار ہوں اور ان كے خصائص ميں شامل ہوں جو ان كا امتياز ہو.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ضرور بضرور اپنے سے پہلے لوگوں كى پيروى اور تقليد كروگے بالشت كے ساتھ بالشت اور ہاتھ كے ساتھ ہاتھ حتى كہ اگر وہ ضب ( گوہ ) كى بل ميں داخل ہوئے تو تم بھى جاؤگے ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہود و نصارى ؟
تو آپ نے فرمايا: اور كون ؟ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1397 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4822 ).
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كسى قوم كى مشابہت كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3512 )
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى يہود و نصارى پر لعنت كرے انہوں نے اپنے انبياء كى قبروں كو سجدہ گاہ بنا ليا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 425 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 531 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى بتايا كہ جب بھى ان ميں كوئى نيك و صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ اس كى قبر پر مسجد بنا ليتے، اور اس ميں تصويريں بنا ليتے، اور يہ لوگ برى ترين مخلوق ميں سے ہيں.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 417 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 528 ).
ان دنوں قبروں ميں غلو كى بنا پر شرك اكبر جيسا شنيع كام ہو رہا ہے، جو ہر خاص و عام كے علم ميں ہے، اور اس كا سبب يہود و نصارى كى تقليد اور نقالى كے سوا كچھ نہيں.
اور اسى طرح شركيہ اور بدعتى تہواروں ميں كفار كى تقليد اور نقالى كى جا رہى ہے مثلا: عيد ميلاد صدر اور بادشاہوں كى سالگرہ، ان تہواروں كو بدعتى يا شركيہ تہوار يا ہفتے كہا جاسكتا ہے ۔ مثلا يوم آزادى، يوم والدہ، اور ہفتہ صفائى ۔ اس كے علاوہ دوسرے يومى تہوار يا ہفتہ وار تہوار، يہ سب مسلمانوں ميں كفار كى جانب سے داخل ہوئے ہيں؛ وگرنہ اسلام ميں تو صرف دو ہى تہوار اور عيديں ہيں: عيد الفطر، اور عيد الاضحى، اس كے علاوہ باقى جتنى بھى عيديں اور تہوار ہيں وہ كفار كى تقليد اور نقالى ميں منائے جارہے ہيں.
تیسری بات کہ
نوکری کرنا اگر حلال ہے اور کوئی میسر نہیں تو کرینگے۔ ان کو اپنے یہاں نوکری پر رکھنا غلط اسلیے ہوگا کہ اگر کوئی مسلمان اس نوکری کا حقدار ہے ویسا ہی کام جانتا ہے تو مسلمان مسلمان کو ترجیح دے۔
عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ تم کو اللہ تباہ کرے، اس بات کا علم مجھے نہیں اور میں اس کا ذکر کرچکا ہوں کہ میں نے یہ تراشے سے نقل کی ہے اور میرا ایمان اس بات پر قائم ہے۔
دنیاوی امور میں ترقی کرنا غلط نہیں ہے ہم اچھے انجینئر بنے ڈاکٹر بنے اچھا مکینک بنے اس میں کوئی غلط نہیں۔ بلکہ ہمیں ان سے اچھا کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی چیزوں کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور مسلمان ہی اصل حقدار ہیں کیونکہ مسلمان اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
میں نے ایک عرصہ ہندؤں اور نصارا کے ساتھ گزارا ہے میں ان کی رگ رگ سے واقف ہوں
اس دوران میں نے الحمدللہ ان کو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام وقفے وقفے سے بہت احتیاط سے تبلیغ کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام مسلمانوں کے لیے ہے کہ
بلغوا عنی ولو آیۃ ،،، میری طرف سے ایک آیات بھی ہو اس کو آگے بڑھاؤ۔
اللہ تبارک وتعالی نے یھودیوں کے متعلق فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یہ لوگ جب بھی کوئ عہد کرتے ہیں تو ان کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے ہی خالی ہیں } البقرۃ ( 100 )
مسلمان اس بات پر راضی بھی ہوجائيں کہ وہ یھودیوں کے ساتھ سلامتی سے رہیں گے تو حکم اور سلطہ اور طاقت کس کی ہوگی ؟ کیونکہ اسلام کا یہ قاعدہ ہے کہ اسلام اوپر ہے اس کے اوپر کوئ نہیں آسکتا ، اور پھر مسلمانوں کے ملک میں اہل کتاب کے رہنے کی شرط یہ ہے کہ یھودی یا عیسائ اہل ذمہ کی شروط پر رہیں گہ اور وہ ذمی بن کر رہیں جس پر مسلمان ان کی حفاظت اور بچاؤ کریں گے ، اور ان شرائط میں سے اہم شرط یہ ہے کہ کتابی اپنے کفر وشرک کو مسلمانوں کے ملک میں نہ تو عملی اور نہ ہی قولی طور پر اس کی تشہیر اور ظاہرا کریں گے ۔
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اپنے رب کی طرف سے وحی کے ساتھ بولتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہتے انہوں نے مستقبل کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے :
( تم سے یھودی لڑیں گے تو تم ان پر غالب ہوجاؤ گے حتی کہ پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آ‎ؤ اور اسے قتل کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2926 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2921 )۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے لڑ کر انہیں قتل نہیں کر لیتے ، حتی کہ یھودی درخت اور پتھر کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے اللہ تعالی کے بندے یہ میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر ، صرف غرقد کا درخت نہیں کہے گا کیونکہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ) صحیح مسلم ( 2922 )
فرمان بارى تعالى يہ ہے:
{ان ميں سے بہت سے لوگوں كو آپ ديكھيں گے كہ وہ كافروں سے دوستياں كرتے ہيں، جو كچھ انہوں نے اپنے ليے آگے بھيج ركھا ہے وہ بہت برا ہے، كہ اللہ تعالى ان سے ناراض ہو اور وہ ہميشہ عذاب ميں رہيں گے، اگر وہ اللہ تعالى اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور جو اس پرنازل كيا گيا ہے اس پر ايمان ركھتے ہوتے تو يہ كفار سے دوستياں نہ كرتے، ليكن ان ميں سے اكثر لوگ فاسق ہں} المائدۃ ( 80 - 81 ).
فرمان بارى تعالى ہے:
{مومنوں كو چاہيے كہ وہ ايمان والوں كو چھوڑ كر كافروں سے دوستياں نہ لگاتے پھريں، اور جو كوئى بھى ايسا كرے گا وہ اللہ تعالى كى كسى حمايت ميں نہيں، مگر يہ كہ ان كے شر سے كسى طرح بچاؤ مقصود ہو}آل عمران ( 28 ).
لھذا اس آيت كريمہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ جتنى بھى آيات ميں كفار سے مطلقا دوستى كرنے كا حكم آيا ہے وہ اختيارى حالت ميں ہے، ليكن خوف اور ڈر اور بچاؤ كى حالت ميں اتنى دوستى كرنے كى اجازت ہے جس سے ان كے شر اور برائى سے محفوظ رہا جا سكے، ليكن اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ اس حالت ميں بھى دوستى كرنے والا شخص باطنى طور پر دوستى نہ لگائے بلكہ صرف اوپر اوپر سے ہى ركھے، اور اضطرارى حالت ميں كوئى كام كرنے والا شخص اختيارى حالت ميں كام كرنے والے شخص كى مانند نہيں ہے.
ان آيات كے ظاہر سے يہى سمجھ آتى ہے كہ جس شخص نے بھى عمدا اور جان بوجھ كر ان كے ساتھ رغبت كرتے اور انہيں چاہتے ہوئے دوستى كى وہ بھى ان كى طرح كافر ہے" انتہى
ديكھيں: اضواء البيان للشنقيطى ( 2 / 98 - 99 ).
اور كفار كے ساتھ حرام كردہ دوستى كى صورتوں ميں سے ايك صورت يہ بھى ہے كہ:
كفار كو دوست اور ساتھى بنايا جائے، اور ان كے ساتھ كھانے پينے اور كھيل ميں ميل جول ركھا جائے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا قول تھا كہ:
" جب ضرورت يا كوئى شرعى مصلحت ہو تو كافر كے ساتھ كھانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن تم انہيں ساتھى بنا كر ان كے ساتھ بغير كسى شرعى سبب يا كسى شرعى مصلحت كے بغير نہ كھاؤ، اور نہ ہى ان كے ساتھ انس ركھو، اور ان كے ساتھ ہنسو، اور كھيلو كودو، ليكن جب اس كى ضرورت پيش آئے مثلا: مہمان كے ساتھ كھانا، يا انہيں اللہ تعالى كى دعوت پيش كرنے يا حق كى دعوت دينے يا كسى اور شرعى سبب كے پيش نظر كھانا پڑے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اہل كتاب كا كھانا ہمارے ليے جائز ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ ہم انہيں دوست اور ساتھى اور ہم نشين، ہم نوالہ و ہم پيالہ بنا ليں، اور نہ ہى اس كا تقاضا يہ ہے كہ ہم بغير كسى شرعى حاجت اور سبب اور شرعى مصلحت كے ان كفار كے ساتھ كھانا پينا شروع كرديں ". انتہى
فرمان بارى تعالى ہے:
{( مسلمانو! ) تمہارے ليے ابراہيم عليہ السلام ميں اور ان كے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ ہے، جبكہ ان سب نے اپنى قوم سے برملا كہہ ديا كہ ہم تم سے اورجن جن كى تم اللہ تعالى كے سوا عبادت كرتے ہو ان سب سے بالكل بيزار ہيں، ہم تمہارے ( عقائد كے ) منكر ہيں جب تك تم اللہ تعالى وحدانيت پر ايمان نہ لاؤ ہم ميں اور تم ميں ہميشہ كے ليے بغض و عداوت ظاہر ہو گئى} الممتحنۃ ( 4 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
{آپ اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان ركھنے والوں كو اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرنے والوں سے محبت ركھتے ہوئے ہر گز نہيں پائيں گے، چاہے وہ ان كے باپ ہوں يا ان كے بيٹے، يا ان كے بھائى ہوں يا ان كے كنبہ قبيلہ كے عزيز ہى كيوں نہ ہوں، يہى لوگ ہيں جن كے دلوں ميں اللہ تعالى نے ايمان لكھ ديا ہے، اور جن كا تائيد اپنى روح كے ساتھ كى ہے} المجادلۃ ( 22 ).
اور اس بنا پر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے حلال نہيں كہ اس كے دل ميں اللہ تعالى كے دشمنوں جو واقعتا اس كے اپنے بھى دشمن ہيں كى محبت و مودت پيدا ہو.
فرمان بارى تعالى ہے:
{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں} الممتحنۃ ( 1 ).
اور رہا مسئلہ يہ كہ اگر مسلمان شخص كو ان كے مسلمان ہونے اور ايمان لانے كا لالچ اور طمع ہو تو ان كے ساتھ نرم برتاؤ اور نرمى اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ اسلام قبول كرنے پر تاليف ہونے كے اعتبار سے ہے، ليكن جب ان كے اسلام قبول كرنے سے نااميد ہو جائے تو پھر ان كے ساتھ وہى معاملہ اور برتاؤ ركھا جائے گا جس كے وہ مستحق ہيں.
اور رہا مسئلہ كفار سے ميل جول اور اختلاط كرنے كا تو اس كى ممانعت كى علت صرف كفر ميں پڑنے كا خوف ہى نہيں، بلكہ اس حكم سے بھى كئى ايك ايسى علتيں ہيں جو زيادہ ظاہر ہيں: وہ يہ ہيں:
ان كا اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں سے بغض و عداوت اور دشمنى ركھنا.
اس علت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
{اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں، وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اور تمہيں بھى صرف اس وجہ سے جلاوطن كرتے اور گھروں سے نكالتے ہيں كہ تم اپنے رب پر ايمان ركھتے ہو} الممتحنۃ ( 1 ).
تو پھر ايك مسلمان شخص كو يہ كيسے زيب ديتا ہے اور اس كے شايان شان كيسے ہے كہ وہ اللہ تعالى اور اپنے دشمن كے ساتھ دوستياں لگاتا پھرے؟!
پھر ان كے طريقوں اور مذہب كو اچھا سمجھنے والا شخص كيسے بے خطر و بے خوف رہ سكتا ہے؟
حالانكہ بہت سے مسلمان تو ان كے ساتھ ميل جول ركھنے اور دوستياں لگانے كے باعث ہى كفر و الحاد ميں پڑ كر اور ان كے ملكوں ميں بود و باش اختيار كركےدين اسلام سے مرتد ہو چكے ہيں، ان ميں سے بعض نےيہوديت اختيار كرلى ، اور كچھ نصرانى بن گئے، اور كچھ نے فلسفى اور ملحد قسم كا مذہب اختيار كر ليا.
اللہ تعالى سے ہمارے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنے دين اسلام پر ثابت قدم ركھے.
 
Top