یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں ۔۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں
محبت کا بیاں ہے اور ہم ہیں

جلا کر خط کسی کا رو رہے ہیں
یہاں اس کا دھواں ہے اور ہم ہیں

تمہاری یاد آتی ہے کہاں سے؟
صدائے بے نشاں ہے اور ہم ہیں

مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں

کسی دن آپ کو ہم دیکھ لیں گے
یہ اک خوابِ جواں ہے اور ہم ہیں

یہ جسمِ ناتواں ہے بوجھ ہم پر
یہ روحِ بے اماں ہےاور ہم ہیں

ہے نیچے راہبر ابرِ رواں کے
جھلستا کارواں ہے اور ہم ہیں

تمہیں سمجھائیں دل کی بات کیسے
ہمارا ترجماں ہے اور ہم ہیں

یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں

نہ کوئی بات سمجھے ہے نہ بولے
محبت کی زباں ہے اور ہم ہیں

زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں

لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں

بہت وحدانیت چاہی، مگر اب
وہی کوئے بتاں ہے اور ہم ہیں

جہاں بھر میں ہیں شاہد ہم اکیلے
خدائے مہرباں ہے اور ہم ہیں

۔۔۔ غزل میں کون سے اشعار رکھے جائیں، کون سے حذف کیے جائیں؟ ۔۔۔ وزن کہاں کہاں خراب ہوا؟، اصلاح کی کیا صورت ہے؟ ۔۔ ان تمام پریشانیوں کا حل تلاش کرنا ہے۔۔۔ آپ اساتذہ کی مدد سے۔۔
محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
 
اول ۔۔۔ غزل میں کون سے اشعار رکھے جائیں، کون سے حذف کیے جائیں؟​
دوم ۔۔۔ وزن کہاں کہاں خراب ہوا؟ اصلاح کی کیا صورت ہے؟​
سوم ۔۔۔ ان تمام پریشانیوں کا حل تلاش کرنا ہے​

اول: شعروں کو حذف کرنا کیا ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے تو یہ فیصلہ کرنا شاعر کا کام ہے۔
دوم: بہ ظاہر تو اس میں وزن کا کوئی مسئلہ نہیں۔
سوم: سوال زائد ثابت ہوا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اول: شعروں کو حذف کرنا کیا ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے تو یہ فیصلہ کرنا شاعر کا کام ہے۔
دوم: بہ ظاہر تو اس میں وزن کا کوئی مسئلہ نہیں۔
سوم: سوال زائد ثابت ہوا
نہیں استاد محترم سوال زائد نہیں ہے، وہ اس سوال کا ما بعد حصہ ہے جس میں ہم نے اصلاح کی درخواست کی ہے۔۔۔
خیر ۔۔۔ اس بار اس مشکل کام میں ، آپ کی تھوڑی سی مدد کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ دیکھئے کتنی کامیابی ہوتی ہے۔۔
یہاں جو شعر میں نے سرخ کیے، وہ حذف کرنے کے قابل اور جن کونیلے رنگ سے واضح کیا ہے، ان کو کمزور سمجھتا ہوں ۔۔۔

یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں
محبت کا بیاں ہے اور ہم ہیں

جلا کر خط کسی کا رو رہے ہیں
یہاں اس کا دھواں ہے اور ہم ہیں

تمہاری یاد آتی ہے کہاں سے؟
صدائے بے نشاں ہے اور ہم ہیں

مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں

کسی دن آپ کو ہم دیکھ لیں گے
یہ اک خوابِ جواں ہے اور ہم ہیں

یہ جسمِ ناتواں ہے بوجھ ہم پر
یہ روحِ بے اماں ہےاور ہم ہیں

ہے نیچے راہبر ابرِ رواں کے
جھلستا کارواں ہے اور ہم ہیں

تمہیں سمجھائیں دل کی بات کیسے
ہمارا ترجماں ہے اور ہم ہیں

یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں

نہ کوئی بات سمجھے ہے نہ بولے
محبت کی زباں ہے اور ہم ہیں

زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں

لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں

بہت وحدانیت چاہی، مگر اب
وہی کوئے بتاں ہے اور ہم ہیں

جہاں بھر میں ہیں شاہد ہم اکیلے
خدائے مہرباں ہے اور ہم ہیں

کیا یہ ’’رائے‘‘ درست ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں
محبت کا بیاں ہے اور ہم ہیں

جلا کر خط کسی کا رو رہے ہیں
یہاں اس کا دھواں ہے اور ہم ہیں

تمہاری یاد آتی ہے کہاں سے؟
صدائے بے نشاں ہے اور ہم ہیں

مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں

کسی دن آپ کا دیدار ہوگا
یہ اک خوابِ جواں ہے اور ہم ہیں

یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں

لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں

جہاں بھر میں ہیں شاہد ہم اکیلے
خدائے مہرباں ہے اور ہم ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حذف ۔۔۔
نہ کوئی بات سمجھے ہے نہ بولے
محبت کی زباں ہے اور ہم ہیں

زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں

بہت وحدانیت چاہی، مگر اب
وہی کوئے بتاں ہے اور ہم ہیں
۔۔۔
اب غزل ٹھیک لگ رہی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
میری ذاتی رائے مطلع کمزور ہے۔
دوسرے کمزور اشعار
تمہاری یاد آتی ہے کہاں سے؟
صدائے بے نشاں ہے اور ہم ہیں
(یاد کا کوئی سورس ہوتا ہے کیا؟)

یہ اک خوابِ جواں ہے اور ہم ہیں
والا شعر، خواب جواں کی وجہ سے

اور
زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں

خواہ مخواہ حذف کر دیا ہے!! باقی دو اشعار قابل حذف ہی تھے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں
محبت کا بیاں ہے اور ہم ہیں
جلا کر خط کسی کا رو رہے ہیں
یہاں اس کا دھواں ہے اور ہم ہیں
مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں
کسی دن آپ کا دیدار ہوگا
یہ اک خوابِ جواں ہے اور ہم ہیں
یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں
لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں
زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں
جہاں بھر میں ہیں شاہد ہم اکیلے​
خدائے مہرباں ہے اور ہم ہیں​
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الحال ۔۔۔ یہ صورت ہے۔۔۔ مطلعے پر غور باقی ہے۔۔۔ بشرطِ فرصت۔۔۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں تیرا گماں ہے اور ہم ہیں
محبت کا بیاں ہے اور ہم ہیں
جلا کر خط کسی کا رو رہے ہیں
یہاں اس کا دھواں ہے اور ہم ہیں
مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں
یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں
لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں
زمیں پیروں سے نکلی جا رہی ہے
سروں پر آسماں ہے اور ہم ہیں
جہاں بھر میں ہیں شاہد ہم اکیلے​
خدائے مہرباں ہے اور ہم ہیں​
۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ فی الحال ۔۔۔ یہ صورت ہے۔۔۔ مطلعے پر غور باقی ہے۔۔۔ بشرطِ فرصت۔۔۔​
خواب جواں والا شعر حذف کرنا بھول گیا۔۔۔
 
بڑی عجیب سی بات لگے گی، آپ کو جناب شاہد شاہنواز صاحب۔
حذف وغیرہ سے قطع نظر یہ پوری غزل کمزور ہے۔ مسئلہ ابلاغ یا اوزان و بحور کا نہیں ہے۔ مضامین تو ظاہر ہے شاعر ہی لائے گا، اس پر گرفت نہیں ہو سکتی۔ ہاں اظہار کی وہ سطح بن نہیں پائی جو قاری کے لئے کشش رکھتی ہو۔ بات مضمون اور بیان سے اٹھ کر شعریت کی سطح پر نہیں پہنچ پائی۔
 
مسلسل اشک بہتے جا رہے ہیں​
یہ دریائے رواں ہے اور ہم ہیں​
معذرت خواہ ہوں، یہ ایک بیان ہے اور بس۔ اشکوں کی نمی قاری تک نہیں پہنچ رہی اگرچہ دریائے رواں کی صورت ہے۔
یہ شعر دیکھئے گا:
آپ کرتے ہیں بات خوابوں کی​
اور ہم نیند کو ترستے ہیں​
اک عجب سلسلہ شکست کا ہے​
اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں​
۔۔۔
 
یہاں آبادیاں ہیں قتل گاہیں​
قیامت کا سماں ہے اور ہم ہیں​

یہ تو اتنا بڑا موضوع ہے کہ شعر کا اچھا قاری کیا، ہر شخص خوف اور عدم تحفظ کی کیفیات کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ محسوس بھی کر سکتا ہے۔ بارِ دگر معذرت کہ اس شعر میں کوئی تاثر نہیں پیدا ہو رہا اگرچہ بیان میں کوئی الجھاوا نہیں۔
 
لبوں پر سسکیاں، آنکھوں میں آنسو​
یہ شہرِ بے اماں ہے اور ہم ہیں​
اپنے سے پہلے شعر کا تسلسل ہے۔ ان دونوں کو ملا کر قطعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک دو شعر دیکھئے:
وہ تو اس شام سرِ شہر پناہ​
شہر کا درد لکھا تھا میں نے​
یونہی اک عالمِ مجبوری میں​
جبر کو جبر کہا تھا میں نے​
۔۔۔۔۔۔
 
تمہاری یاد آتی ہے کہاں سے؟​
صدائے بے نشاں ہے اور ہم ہیں​

آپ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صدا کا منبع معلوم نہیں ہے۔ بے نشان ہونا بالکل مختلف بات ہے۔ پہلا مصرع قاری کو جس انداز میں چھیڑتا ہے دوسرا مصرع اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔

اس شعر پر ذرا سی اور توجہ دیں تو بہت عمدہ صورت نکل آئے گی۔
 
نہ کوئی بات سمجھے ہے نہ بولے
محبت کی زباں ہے اور ہم ہیں​

بہت وحدانیت چاہی، مگر اب
وہی کوئے بتاں ہے اور ہم ہیں​

ان کے بارے میں آپ کا فیصلہ مناسب ہے۔
تاہم ایک مشورہ ہے کہ ان کو کلی طور پر رد نہ کریں، خیال کو پکنے دیں۔ جہاں کہیں خیالات اور محسوسات ہم آہنگ ہو گئے، یہی مضامین ایک نئے رنگ میں سامنے آئیں گے۔
 
وہ جیسا اقبال نے کہا ہے نا!

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

وہ ہے اصل بات۔ شعر اس کے بغیر ہو نا، تو ملمع کاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔


معذرت خواہ ہوں، کہ ایسی کڑوی کسیلی باتیں کر دیں۔ اس کے باوجود شعر آپ کا ہے، مضمون، خیال، احساس، اسلوب سب کچھ آپ کا ہے، آپ کو جیسے اچھا لگے کہئے۔ اور جس شعر کو جیسے چاہے چمکائیے ’’لشکائیے‘‘۔

ڈاکٹر رؤف امیر مجھے اکثر کہا کرتا تھا: ’’اپنے شعروں کو پالش کرتے رہا کرو، یار‘‘۔
 
Top