یکم مئی، روز معلم

ایس ایم شاہ

محفلین
یکم مئی، روز معلم
تحریر: ایس ایم شاہ
حضرت علیؑ کا فرمان ہے: جس نے مجھے ایک حرف سکھایااس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا، روایات کی رو سے ہر شخص کے تین باپ ہوتے ہیں، صلبی باپ، بیوی کا باپ یعنی سسر، وہ باپ جس نے اسے تعلیم دی ہے۔صلبی باپ اپنے بچے کو دنیا میں لانے کا سبب بنتا ہے، سسر اپنی بیٹی کی اچھی تعلیم و تربیت اور اس کے حوالے سے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرتا ہے، یعنی ایک بہترین امانتدار کی مانند اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتا رہتا ہے، پھر عالم شباب تک پہنچتے ہی اسے عقد ازدواج سے منسلک کردیتا ہے، استاد وہ باعظمت ہستی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے، ہدف انسانیت سے اسے آشنا کرتا ہے، انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے اسے آگاہ کرتا ہے، اسے معاشرے اور ملک کے لیے ایک مفید شہری بنا تا ہے، اسے نشہ اور لہو لعب سے بچاتا ہے، ان حوالوں سے دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ استاد کا حق بھی اپنے صلبی باپ سے کم نہیں، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک بہترین استاد ہونا قرار دیا ہے، روایات میں سب سے بخیل اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے علم کو دوسروں کو سکھانےمیں بخل سے کام لیتا ہے، ساتھ ہی دوسروں کو تعلیم دینے کو علم کی زکوۃ قرار دیاگیا ہے، جس معاشرے میں جتنا استاد کا احترام زیادہ ہوگااتنا ہی وہ معاشرہ علمی اور دوسرے میدانوں میں زیادہ ترقی کر پائے گا، ترقی یافتہ ممالک میں استاد کو سرکاری وزیروں سے بھی زیادہ اہمیت اور احترام حاصل ہے، اسی وجہ سے وہ زندگی کےمختلف شعبوں میں دن بہ دن ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، جبکہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہونے اور آیات و روایات میں استاد کا اتنا بڑا مقام بیان ہونے کے باوجودبھی ہمارے ہاں ان کا کماحقہ احترام نہیں کیا جاتا، استاد کی اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کی خاطر یکم مئی کو استاد شہید مطہری کی یوم شہادت کی مناسبت سے اسے پورے ایران میں روز معلم کے عنوان سے منایا جاتا ہے، شہید جہاں ایک بہت بڑے فلاسفر، متکلم اور جدید اور قدیم علوم سے سرشار تھے وہاں ایک بہترین پروفیسربھی تھے، آپ نے مختلف موضوعات پر تیس سے زائد ضخیم کتابیں تالیف کیں، جن میں سے ہر ایک پی ایچ ڈی تھیسس کی مانند ہے،آپ کی کتابیں معلومات کا خزانہ ہیں، یونیورسٹیوں میں آپ نے کثیر تعداد میں برجستہ شاگردوں کی تربیت کی، اسی اہمیت کے پیش نظر اس دن کو یوم معلم کا نام دیا گیا ہے، تاکہ نئی نسل کو استاد کی اہمیت اور اس کے مقام سے آگاہ رکھا جاسکے، ہم جہاں مزدوروں کے حقوق کے دفاع کے لیے مزدور ڈے مناسکتے ہیں، کشمیر ڈے مناسکتے ہیں، مادر ڈے مناسکتے ہیں تو کیوں نہ ایک دن ہم اپنے اساتذہ سے منسوب کریں، اگر یہی اساتذہ نہ ہوتے تو ہمارےمعاشرے میں جہالت کا دور دورہ ہوتا، زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی ممکن نہ ہوتی، نت نئے ایجادات سامنے نہ آتے، چھوٹے بڑے کا احترام نہ ہوتا، اگرچہ ہر دن روز معلم ہے، لیکن ایک خاص دن کو ان سے منسوب کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مقام اور رتبے کو قومی سطح پر بلند کیا جائے، یعنی استاد کے احترام کا دن، استاد کی خدمات کی قدردانی کا دن، استاد کی حوصلہ افزائی کا دن، استاد سے ایک نئے جذبے کے ساتھ تجدید عہد کا دن، معاشرے میں استاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا دن، آج ہم اپنے اساتذہ کرام سے بھی تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم کبھی ان کی زحمتوں کو رائیگاں نہیں ہونے دیں گے،ہم ان کی بے لوث خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ان کے حوصلوں کی قدردانی کرتے ہیں، آج ہم اس حقیقت کے اعتراف کو اپنے لیے ایک اخلاقی اور شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں قریب میں ہماری تمام کامیابیوں میں ان کا عمل دخل ہے، ہمارے ہر کار خیر میں ان کا بھی ناقابل فراموش حصہ ہےکیونکہ، رحمت عالم کے فرمان کے مطابق جو کوئی سنت حسنہ چھوڑ کر چلاجائے تو اسے اس کا ثواب ملنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے والے کا ثواب بھی ملتا رہتا ہے، بغیر اس کے کہ اس عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع ہوجائے، ان میں سے ایک اہم سنت حسنہ اچھے شاگردوں کی تربیت ہے، شاگرد اپنے استاد سے تربیت پانے کے بعد اگر خدانخواستہ وہ استاد اس دنیا سے چلا بھی جائے تب بھی اس شاگرد کے ہر کار خیر میں قیام قیامت تک وہ استاد بھی شریک رہتا ہے ، اسی طرح آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے کہ اچھے استاد کے لیے زمین پر رینگنے والے حیوانات، سمندر کے نہنگ، ہوا میں موجود تمام ذی روح اور اہل زمین و آسمان سب ان کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، ہم اپنے اساتذہ کرام کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جنھوں نے اپنی آسائشوں کو ہماری خاطر قربان کیا، جنھوں نے ہماری تربیت کی خاطر خون دل بہائے، جنہوں نےہمیں شفقت پدری سے نوازا، جنہوں نے ہمیں بلنداہداف سے آشنا کیا، جنہوں نے ہمیں غلط سوسائٹی سے بچائے رکھا، جنہوں نے ہماری کامیابی کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اٹھائیں، جن کی راتیں ہمیں پڑھانے کا حق ادا کرنے کی خاطر مطالعے میں بیت گئیں، جنہوں نے اپنے نیک دعاؤں میں ہمیں شریک رکھا، اگر ہم نے معاشرے میں تعلیم و تربیت کو عام کرنا ہے اور ہمارے نئی نسل کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے تو سب سے پہلے اچھے اساتذہ کی تربیت دینی ہوگی، پھر ان کے احترام کو معاشرے میں عام کرنا ہوگا، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا تاکہ وہ بغیر کسی مشکل کے اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرسکیں، جب معاشرے میں اساتذہ کا احترام بڑھے گا تب اچھے اچھے افراد اس فیلڈ کا انتخاب کریں گے، جب اچھے افراد اس لائن میں آجائیں گے تب ہماری اولاد کے لیے اچھے اساتذہ میسر آئیں گے، جب ان کے لیے اچھے اساتذہ فراہم ہوں گے تب وہ اچھے شاگردوں کی بھرپور تربیت کرسکیں گے، جب ایسے افراد سے تربیت یافتہ افراد معاشرے میں قدم رکھیں گے تو ان کے قدم سے معاشرہ ہر جہت سے رشد اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، یاد رکھئے کہ بہترین استاد ہی بہترین نسلوں کی تربیت کا ضامن ہوا کرتا ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ رب العزت ہمارےگزشتہ اساتذہ کرام اور موجود اساتذہ کرام کی ان بے لوث خدمات کو شرف قبولیت عطا کرے اور ہمیں ان سے بھرپور رہنمائی لیکر اسے ملک و ملت کی ترقی اور سربلندی کے لیے وسیلہ بنانے کی توفیق دے، آمین ثم آمین
 
Top