یوکرائن میں اردو اور پاکستان کا شیدائی

انتہا

محفلین
یوکرائن میں اردو اور پاکستان کا شیدائی
ڈاکٹر رؤف امیر

الیکسی تو لچینیکوف المعروف علی پاکستانی، یوکرین اس کا اصل وطن ہے اور غم ِ روزگار کا مارا قازقستان میں موجود ہے۔ یورپ اور ایشیا کے اتصال کے باعث ہم اسے ''یورایشیائی'' شخصیت کہہ سکتے ہیں۔ روسی اس کی مادری زبان ہے۔ لیکن یوکرینین، چیک اور پولش پر بھی اسے عبور حاصل ہے۔ عربی، فارسی اور انگریزی میں وہ بات کر سکتا ہے لیکن ہمارے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ وہ اردو، پشتو اور پنجابی اچھی طرح جانتا ہے۔ یہی نہیں، اگر اسے اردو کا بہترین مقرر اور مترجم کہیے تو غلط نہ ہو گا۔ اردو زبان اس نے خدا داد صلاحیتوں اور ذاتی کاوشوں سے سیکھی۔ وہ کسی مکتب یا مدرسے میں نہیں گیا۔ سوویت عہد کے یوکرین میں اردو کی تعلیم کا کوئی ادارہ نہ تھا، بلکہ آج تک یہ زبان وہاں کی یونیورسٹیوں کے لیے اجنبی ہے۔
اس قتیلاردو، عاشق اسلام اور محب پاکستان کا پورا نام AlexiF. Gennevich Tolchinikov ہے۔ قبول اسلام کے بعد اسے علی کہا جانے لگا۔ پاکستان سے اس کی محبت کے پیش نظر میں اسے ''علی پاکستانی'' کا نام دینا چاہوں گا۔ وہ 24دسمبر1969ء کو یوکرین کے شہر دومنتسک میں پیدا ہوا۔ نو برس کا تھا کہ ایک حادثے میں والد کی وفات ہو گئی۔ اس کی والدہ نے اسے ناز و نعم سے پالا اوراس کی ہر ضد پوری کی اور یہ ''ہر ضد'' کیا تھی فقط اور فقط اردو! ہوا یوں کہ الیکسی نے میٹرک میں انڈین فلمیں دیکھنا شروع کیں تو اردو سے اس کی دلچسپی بڑھی۔ محمد رفیع کے سینکڑوں گانے حفظ کر لیے۔ مفہوم سے ناآشنائی کے باوجود الیکسی کو اردو مکالمے، موسیقی اور شاعری اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ وہ آج تک اردو کی صدائے شیریں کی گرفت میں ہے۔ اس نے ماں سے یہ ضد کی کہ وہ اردو زبان سیکھے گا۔ ماں نے منع کیا کہ یوکرین میں ایسا ممکن نہیں لیکن وہ والدہ کو لے کر ماسکو گیا اور وہاں سے روسی ادبیات کے تراجم، روسی اور اردو لغت اور دیوناگری اور اردو کے حوالے سے کتابیں لے کر آیا۔ اس نے اپنے طور پر یہ زبان پڑھنا شروع کی اور اچھی خاصی استعداد پیدا کر لی۔ اس دور میں پاکستان سے میڈیکل کی تعلیم کے لیے طلبا یوکرین جایا کرتے تھے۔ اس نے دس برس تک مسلسل پاکستانی دوست بنائے اور ان سے اردو کا درس لیا۔ یہ دوست جب پاکستان آتے الیکسی کے لیے ڈائجسٹ، رسالے اور کتابیں لے جاتے۔ ان دوستوں میں زیادہ تر صوبہ سرحد سے تھے۔ الیکسی نے ان سے پشتو بھی سیکھی اور امیر کروڑ، رحمان بابا، خوش حال خان خٹک، اجمل خٹک اور غنی خان کا کلام ازبر کر لیا۔ جاتے ہوئے یہ احباب اسے اپنے پتے دے جاتے کہ پاکستان آنا تو ضرور ملنا۔ بعض پنجابی دوستوں سے اس نے پنجابی بھی سیکھی۔ یوں اسے اردو، پشتو اور پنجابی پر عبور حاصل ہو گیا۔
نوے کی دہائی کے آغاز میں سوویت یونین بکھرنے لگا تو یوکرین میں بھی بدامنی پھیل گئی۔ الیکسی نے ایک بار پھر ضد کی کہ وہ اس ملک جائے گا جہاں کی تین زبانیں اسے آتی ہیں۔ ماں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ماں بیٹا واحد سہارا، اپنا فلیٹ فروخت کر کے پاکستان جانے کے لیے ازبکستان پہنچ گئے۔ تاشقند میں واقع پاکستانی سفارت خانہ ویزہ دینے میں لیت و لعل سے کام لینے لگا۔ پوچھ گچھ شروع ہو گئی اور اس نے اتنا طول پکڑا کہ انتظار ہی انتظار میں ازبکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی، کراچی کے حالات ابتر ہو گئے اور ازبکستان اور پاکستان کے مابین پروازوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ الیکسی نے ضعیف والدہ کو تاشقند چھوڑا اور تلاش ِ معاش کے لیے دبئی پہنچ گیا۔ اردو جاننے کے سبب اسے ایک انڈین کمپنی میں ملازمت مل گئی لیکن ویزہ سیاحت کا تھا اور وہ قانوناً ملازمت نہیں کر سکتا تھا لہٰذا ہندو بنیے نے اس کا خوب خوب استحصال کیا۔ بمشکل ایک سال کے بعد الیکسی پھر بے روزگار ہو گیا۔وہ واپس وطن پہنچا، جمع پونجی ختم ہو گئی اور ماں بیٹا ایک روز سڑک پر آگئے۔ وہ پاکستانی سفارت خانے گئے تو جواب ملا: ''ٹھیک ہے تم نے اردو سیکھی ہے لیکن ہم کیا کریں؟'' یوکرین کے سفارت خانہ پہنچے تو انھوں نے کہا: ''ان کے پاس جاؤ جن کی زبان تم نے سیکھی ہے۔'' لیکن بالآخر یوکرینیوں نے اپنا ہم وطن خیال کرتے ہوئے ایک سو دس ڈالر کی معمولی رقم ان کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا: ''یہ قازقستان پہنچنے کا کرایہ ہے۔ وہاں کے سفارت خانے سے یوکرین جانے کے لیے مزید بھیک مانگ لینا۔'' الیکسی کو ازبکستان ریڈیو کی اردو ہندی سروس کے ایک صاحب نے بتایا کہ قازقستان کے شہر شمکنت میں ایک دار الاشاعت ہے جہاں اردو سے روسی ترجمے کے لیے مترجم کی ضرورت ہے۔ وہ فوراً وہاں پہنچا۔ کام بھی مل گیا، کرائے کا گھر بھی لیکن ایمان کی قیمت پر۔ الیکسی سوویت یونین میں پلا بڑھا تھا۔ اس کی دادی یہودی تھی اور ماں عیسائی۔ وہ خود ملحد تھا۔ لیکن اس وقت اسے قادیانی مذہب قبول کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد قادیانی مشنری پاکستان سے یہاں در آئے تھے۔ الیکسی شمنکت میں جماعت احمدیہ کا ملازم ہو گیا۔ سات برسوں میں اس نے قادیانیت سے متعلق کل 72کتابوں کو اردو سے روسی میں منتقل کیا اور بدلے میں ایک علاقے کی جماعت کا امیر بنا دیا گیا۔ قازقستان کے احمدیوں میں اس کی شادی ہو گئی۔
ایک بچی نے جنم لیا۔ اس کی والدہ شمکنت میں فوت ہو گئی تھیں۔ اب کوئی نہ رہا تھا جس کے ساتھ وہ ضد کرتا۔ زندگی میں ٹھہراؤ آ گیا تھا لیکن الیکسی کے مقدر میں مد و جزر زیادہ ہے۔ قازقستان میں سنی حنفی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جب فتنہ قادیانیت نے زور پکڑا تو یہاں کے مفتی اعظم نے قادیانیوں کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ایک گروہ دعوت حق لے کر الیکسی کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ پیغام قبول کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی کیونکہ قادیانی کتابوں کے گہرے مطالعے کے دوران الیکسی کے دل میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے مثلاً ربوہ کی جنت البقیع، عشرہ مبشرہ کے تصور اور احادیث کی تحریف معنوی سے وہ متفق نہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا اور ''علی'' نام پایا۔ یہی نہیں اس نے قازقستان ٹیلی ویژن پر قادیانیت کے خلاف لیکچرز دئیے۔ جماعت احمدیہ نے اسے الٹی سیدھی دھمکیاں دیں، بیوی نے طلاق لے لی اور چار سالہ بچی کو اپنے ساتھ لے گئی۔ کچھ عرصہ بعد نو مسلم علی کو ایک بار پھر نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ اس کی موجودہ بیوی پکی مسلمان اور تہجد گزار خاتون ہے۔ ایک بار پھر ''اردو'' علی کے کام آئی اور ایک پاکستانی تاجر نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا لیکن علی کے فرائض ِ منصبی میں اس تاجر کے گھر میں جھاڑو دینا اور اس کے کتے کو نہلانا بھی شامل تھا۔ کتاب اور قلم کی محبت میں گرفتار اس تاجر کے ساتھ نہ چل سکا اور ایک بار پھر بے روز گار ہو گیا۔
علی سے میری ملاقات اتفاقیہ تھی، لیکن یہ ملاقات میری زندگی کا حاصل ہے۔ گذشتہ دنوں میں نے اپنے گھر پر اس کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں قازقستان کے بعض اردو دانوں اور اردو کے طالب علموں نے شرکت کی۔ سب لوگ اس کی مرصع و مسجع اور شائستہ و شستہ اردو سن کر حیران تھے۔ وہ ترجمے اور ترجمانی کا کام خوب کر سکتا ہے۔ اس موقع پر ارباب بست و کشاد، سرکاری و غیر سرکاری فلاحی اداروں اور مخیر خواتین و حضرات سے دو سوالات ہیں۔
1۔ لاکھوں افغانیوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیے۔ کیا علی کو جو پاکستان کو اپنا نظریاتی ملک سمجھتا ہے اور اردو کو مادری زبان پر فوقیت دیتا ہے، پاکستان کی شہریت نہیں مل سکتی؟
2۔ علی نے اردو اور پاکستان کی محبت میں اپنا فلیٹ بیچ دیا، وہ بے گھر ہے۔ کیا پاکستان میں اس کے لیے دو مرلے کا مکان بھی نہیں ہے؟ وہ فٹ بال کے کھلاڑی کو دس لاکھ روپے انعام اور پلاٹ دینا بجا، لیکن ''علی پاکستانی'' آپ کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ علی فارغ بیٹھ کر کھانے والا نہیں۔ مقتدرہ قومی زبان کے دار الترجمہ میں اسے ملازمت دی جا سکتی ہے اور اس سے اردو ادبیات کو روسی میں اور روسی ادبیات کو اردو میں ترجمہ کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اسے حکومت ِ پاکستان مستقل ترجمان مقرر کر سکتی ہے اور جب کبھی کوئی وفد سابقہ سوویت یونین ریاستوں یا روس کا دورہ کرے، علی کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ میری بھی یہی کوشش ہے کہ اسے ابلائی خان یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ کر لوں۔ ہم نظریہ پاکستان، علامہ اقبال، قائداعظم اور دیگر مشاہیر سے متعلق مضامین اور کتابیں ترجمہ کر کے شائع کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں کہ ادھر پاکستان سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ غرض کام کم نہیں وسائل نہیں ہیں۔ میں نے وزارت تعلیم سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ ایسا کوئی فنڈ نہیں۔ اگر علی کو ماہانہ 500ڈالر اعزازیہ دیا جائے کہ مترجم یہاں اتنی ہی تنخواہ پاتے ہیں تو علی کے لیے سالانہ نو لاکھ روپے درکار ہیں۔ اگر اس کے کام کو اشاعت کے مرحلے سے گزارنے کے لیے نو لاکھ مزید خرچ کر دیئے جائیں تو فقط اٹھارہ لاکھ میں تاجکستان سے لے کر ماسکو کے ایوانوں تک ''اردو، اردو، پاکستان پاکستان'' کا شور بلند کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہمیں دھماکوں اور باہمی چپقلشوں سے فرصت ملے تو اس پہلو پر بھی سوچ لیجیے گا۔ علی ہندی رسم الخط بھی جانتا ہے۔ اگر وہ بھارتیوں سے رابطہ کرے تو وہ اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ وہ ایک صاحب سے مہا بھارت کا روسی ترجمہ کرانے کا تجربہ کر چکے ہیں لیکن علی پاکستان کے عشق میں گرفتار ہے۔ اپنے دیوانے کو پتھر سے نہ ماریے ورنہ لوگ عشق کرنا چھوڑ دیں گے!
(بشکریہ ''نوائے وقت''، اتوار میگزین، 18اپریل، 2010ء)
 
Top