یوم شہادت عامر چیمہ : 3 مئی

بلال

محفلین
عامر چیمہ کے متعلق جیسا سنا ہے اس لحاظ سے تو اس نوجوان نے ایک بہت بڑا کارنامہ کیا تھا۔ اللہ تعالٰی عامر چیمہ کے درجات بلند فرمائے۔۔۔آمین
اور اللہ تعالٰی نے مجھے عامر چیمہ کے جسد خاکی کو کندھا دینے اور جنازہ پڑھنے کی بھی توفیق دی تھی۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو بھی نیکی کی ہدایت عطا کرے اور سچ کو سچ سمجھ کر اس کی اتباع کرنے اور باطل کو باطل سمجھ کر اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

پپو

محفلین
اللہ اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلی درجات دے اور اس جذبے کو ہماری قوم میں عام کردے
 

بلال

محفلین
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو بھی نیکی کی ہدایت عطا کرے اور سچ کو سچ سمجھ کر اس کی اتباع کرنے اور باطل کو باطل سمجھ کر اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نبیل بھائی میں نے سنا ہے کہ عامر چیمہ شہید ہے۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا شہید کے لئے مرحوم لفظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ مجھے اس بارے میں علم نہیں بس جاننا چاہتا ہوں کوئی تنقید نہیں کر رہا۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
نبیل بھائی میں نے سنا ہے کہ عامر چیمہ شہید ہے۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا شہید کے لئے مرحوم لفظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ مجھے اس بارے میں علم نہیں بس جاننا چاہتا ہوں کوئی تنقید نہیں کر رہا۔۔۔

بلال بھائی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیا نہیں۔ مرنے کے بعد یا شہید ہونے کے بعد اس کا کیا معاملہ ہو، انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اختیار میں ہے۔

مرحوم کا لفظ عربی زبان سے اردو زبان میں آیا ہے۔ صفت ہے اور اس کا مطلب 1) رحمت کیا گیا، 2) مغفور 3) مرا ہوا
اور یہ مذکر کے لیے بولا جاتا ہے۔
 

بلال

محفلین
بلال بھائی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیا نہیں۔ مرنے کے بعد یا شہید ہونے کے بعد اس کا کیا معاملہ ہو، انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اختیار میں ہے۔

مرحوم کا لفظ عربی زبان سے اردو زبان میں آیا ہے۔ صفت ہے اور اس کا مطلب 1) رحمت کیا گیا، 2) مغفور 3) مرا ہوا
اور یہ مذکر کے لیے بولا جاتا ہے۔

شمشاد بھائی تفصیل سے بتانے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ اللہ تعالٰی آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جزاک الف نظامی بھائی ۔۔۔
اللہ تعالٰی عامر چیمہ رحمہ اللہ کے درجات بلند کریں اور ہمیں بھی اللہ تعالٰی توفیق دیں کیونکہ انسان بذات خود کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر اللہ تعالٰی کا خصوصی نظر رحمت اور کرم نہ ہو
ویسے بلال بھائی اگر اس وقت کے تاثرات ہمارے لیے یہاں درج کر لیں ( جنازہ پڑھنا اس کے لیے جانا اور اس وقت آپ کے احساسات ) ؟

موت تو ویسے بھی آنی ہے کیونکہ ہمارا خاتمہ موت پر ہی ہوگا اور اگر خاتمہ ایمان کے ساتھ شہادت کا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ ہمیں جب بھی موت آئے تو ایمان کامل کے ساتھ شہادت کا دیں
آمین
 

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جزاک الف نظامی بھائی ۔۔۔
اللہ تعالٰی عامر چیمہ رحمہ اللہ کے درجات بلند کریں اور ہمیں بھی اللہ تعالٰی توفیق دیں کیونکہ انسان بذات خود کچھ بھی نہیں کر سکتا اگر اللہ تعالٰی کا خصوصی نظر رحمت اور کرم نہ ہو
ویسے بلال بھائی اگر اس وقت کے تاثرات ہمارے لیے یہاں درج کر لیں ( جنازہ پڑھنا اس کے لیے جانا اور اس وقت آپ کے احساسات ) ؟

موت تو ویسے بھی آنی ہے کیونکہ ہمارا خاتمہ موت پر ہی ہوگا اور اگر خاتمہ ایمان کے ساتھ شہادت کا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللہ ہمیں جب بھی موت آئے تو ایمان کامل کے ساتھ شہادت کا دیں
آمین

واجد حسین بھائی انشاءاللہ جلد از جلد میں اُس تاریخی دن کے بارے میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ویسے وہ دن میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔۔۔ میں نے اتنے لوگ آج تک ایک جگہ نہیں دیکھے۔۔۔۔ سخت گرمی جو ٹھنڈک سے بھر پور تھی آج تک نہیں دیکھی۔۔۔
میں جلد از جلد اس دن کی یاداشت کو یہاں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
 

بلال

محفلین
عامر عبدالرحمن چیمہ شہید کے بارے میں معلومات

عامر عبدالرحمن چیمہ شہید کے والد پروفیسر نذیر احمد چیمہ کے مطابق

عامر عبدالرحمن چیمہ شہید کی پیدائش 4 دسمبر 1977ء بروز اتوار صبح تقریباً 8 بجے حافظ آباد، پاکستان میں ہوئی۔ لیکن تاریخ پیدائش کاغذات میں غلطی کی وجہ سے 6 دسمبر 1977 لکھی گئی تھی۔میٹرک گورنمنٹ جامع ہائی سکول برائے طلبا راولپنڈی سے اور ایف ایس سی پری انجینیرنگ سرسید کالج سے کی۔ بی ایس سی ٹیکسٹائل انجینیرنگ فیصل آباد سے کی۔ اس کے بعد پھر ایک ٹیکسٹائل کمپینی میں نوکری کی اور بعد میں مزید دو سال کی تعلیم کے لئے جرمن گئے۔ کورس کے درمیان میں ایک بار پاکستان ملنے آئے اور اپنے والد صاحب سے گستاخِ رسول کے بارے میں معلومات لیتے رہے۔ عامر شہید کے والد کے مطابق اللہ تعالٰی نے انسان کو جس لئے پیدا کیا ہے وہ عامر نے حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ عامر کا تعلق کسی تنظیم سے نہ کبھی تھا اور نہ ہی شہادت کے وقت تھا اور نہ ہی کسی جہادی گروپ سے تعلق تھا۔ عامر طالب علمی کے زمانہ سے شہادت تک کسی بھی تنظیم کا رکن نہیں بنا۔ اُس نے جو کیا وہ اُس کی انفرادی کوشش تھی۔
جرمن میں 2 سال کا کورس مکمل ہونے ہی والا تھا یعنی آخری سمسٹر تھا کہ جرمن میں ہی 3 مئی 2006 کو شہادت پائی۔ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید کے والد کے مطابق عامر کا ایک دوست جو یونیورسٹی میں اس کے ساتھ چار سال رہا تھا۔ عامر شہید کی اپنے دوست کے ساتھ آخری بات 12 مارچ 2006 کو ہوئی جو اس طرح سے ہے۔
عامر شہید:- میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں یعنی گستاخِ رسول کو مارنا چاہتا ہوں۔
دوست نے عامر شہید کو سمجھانے کی کوشش کی
دوست:- تمہارے بوڑھے ماں باپ ہیں۔ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہو۔ اسلئے تم پہلے اپنے والد سے مشورہ کر لو۔
عامر شہید:- تم جانتے ہو کہ والد مجھے یہ نہیں کہیں گے کہ جاؤ اور یہ کام کرو۔
دوست:- کچھ دیر ٹھہر جاؤ پہلے اپنا کورس مکمل کر لو۔
عامر شہید:- اب اس میں دیر نہیں ہو سکتی۔ اب یہ بہت جلدی کا کام ہے۔

دوست سے عامر شہید کا یہ رابطہ 12 مارچ 2006 کو ہوا۔
مزید عامر چیمہ شہید کے والد کہتے ہیں
عامر برلن سے 600 میل دور ایک شہر مارشن لارڈ بار میں رہتا تھا کیونکہ وہاں اس کا داخلہ تھا اور پھر وہ اس کام کے لئے برلن گیا اور کچھ دن برلن میں رہا اور سارے معاملے کی تحقیق کرتا رہا اور اُس گورے سے ملنے کے لئے کوئی راستہ نکالا۔ یعنی اُس نے مکمل سٹیڈی کی پھر وہ واپس اپنی رہائش مارشن لارڈ بار گیا اور پھر 4 دن کے بعد دوبارہ برلن آیا اور اس دفعہ عامر کے پاس ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں ضروری سامان تھا۔ یعنی وہ مکمل تیار ہو کر برلن آیا تھا۔ 20 مارچ 2006ء کو اُس نے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے پر حملہ کیا تھا۔۔۔ آپ اندازہ کریں کہ ایک لڑکا جو بہت پڑھا لکھا ہے، نوجوان ہے، بوڑھے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، انتہائی محبت کرنے والا بیٹا ہے اور انتہائی محبت کرنے والا بھائی ہے وہ کسی طیش میں آ کر یہ کام نہیں کر سکتا بلکہ مکمل سوچ و بچار کر کے اور مکمل تیاری کے ساتھ کیا تھا۔ اس بات ثبوت اُس کا حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہلے برلن جانا پھر تیاری کر کے واپس آنا ہے۔ اگر وہ طیش میں یا عارضی جذبہ کی وجہ سے ایسا کرتا تو اتنے دن میں سب ختم ہو جانا تھا یا کسی نہ کسی موقع پر کچھ لرزش آ جانی تھی۔ لیکن عامر شہید نے دنیا کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کام عشقِ رسولﷺ میں غرق ہو کر کیا۔۔۔
سننے میں آیا ہے کہ جہاں عامر عبدالرحمن چیمہ نے یہ کام کیا یعنی موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا اور پولیس نے تشدد کیا جس کی وجہ سے 3 مئی 2006ء کو قید میں ہی شہادت پائی۔ 13 مئی 2006ء کو جسد خاکی پاکستان پہنچا اور اسی دن نمازِ جنازہ پڑھا گیا۔۔۔



مزید میں بھی نمازِ جنازہ میں شامل ہوا اور اُس دن میں نے کیا محسوس کیا اور کیا کیا دیکھا یہ پھر کبھی۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جزاک اللہ بلال بھائی آپ نے اتنی قیمتی معلومات عامر چیمہ شہید کے بارے میں ہمارے ساتھ شئر کر کے ہمارے ایمانوں کو ایک بار پھر جلا بخشی ۔
 

پیاسا

معطل
للہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو بھی نیکی کی ہدایت عطا کرے اور سچ کو سچ سمجھ کر اس کی اتباع کرنے اور باطل کو باطل سمجھ کر اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
 
بلال بھائی آپ نے اتنی قیمتی معلومات عامر چیمہ شہید کے بارے میں ہمارے ساتھ شئر کر کے ہمارے ایمانوں کو ایک بار پھر جلا بخشی ۔
جزاک اللہ
اللہ اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلی درجات دے اور اس جذبے کو ہماری قوم میں عام کردے
آمین ثم آمین
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بھائی عبید تمھارے یہ نمائندہ تصویر پتہ نہیں میرے لیے کوئی سوالیہ نشان بن رہا ہے اور مجھے ویسی بے بسی سی محسوس ہو رہی ہے شائد ہم نے اپنی زندگی عبس میں گذاری اور اب اللہ پاک ہماری جگہ ایک نئی نسل کو لانے والی ہے جو کہ ہر دم شوق شہادت سے سرشار اور اللہ کے ہر حکم کے تابع ہوگی نہ کہ تاویلات کرنے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اللہ اکبر کبیرا
 

مہوش علی

لائبریرین
عامر چیمہ صاحب کا خاتمہ اسلام پر ہوا ہے اور اللہ تعالی انکے گناہوں کو معاف فرمائے۔

بہرحال، اس موقع پر قوم کو صحیح پیغام بھی ملنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ عامر چیمہ "مجرم" بھی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب جرم کی بات ہوتی ہے تو پوری قوم کے منہ پر ہی تالے پڑ جاتے ہیں، اور اسکی وجہ سے یہ قوم میں فتنہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے اور کوئی ملا، کوئی کالم نگار، کوئی دانشور قوم کو صحیح راہ نہیں دکھاتا۔۔۔۔ اور اگر ہماری یہی روش جاری رہی تو قوم مِیں اور بہت سے معصوم اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر جرم کرتے رہیں گے۔

یاد رکھئیے، صرف نیتوں کے نیک ہونے سے انسان کے "جرائم" ثواب میں نہیں بدل جاتے۔

اگر ایسا ہونے لگے تو شاید بم باندھ کر معصوم لوگوں کی جانیں لینے والے خود کش حمہ آور بھی کبھی یہ کام نہ کریں ، مگر اُن کی نیت ان بم حملوں سے صرف اسلام کی خدمت کرنا ہے۔ چنانچہ انکی نیت عامر چیمہ جیسی ہی نیک ہے پر انکا جرم جرم ہی رہے گا۔

اور جن لوگوں نے پکڑ کر چوروں اور ڈاکووں کو جلا دیا، انکی نیت بھی نیک تھی، مگر ان کا یہ جرم جرم ہی رہے گا۔

قوم کو یہ چیز اچھی طرح اپنے نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈال دینی چاہیے، مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جذبات کو انگیختہ کر کے بالکل غلط چیز کی قوم کے جوانوں کو تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جو قوم کو اسکی غلط روش سے آگاہ کرے۔
 
انصاف کا ایک بہت ہی سادہ سا اصول ہے جو اللہ تعالی بار بار تعلیم فرماتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انصاف سب کے لئے ایک جیسا ہو۔ چاہے وہ کسی بھی قوم یا ملت سے ہو۔ انصاف کرتے وقت ہم کو اپنا تمام تر تعصب اٹھا کر ایک طرف رکھ دینا چاہئے۔ یہی قرآن کا بنیادی اصول ہے، یہی نبی کا پیغام ہے اور یہی اللہ کا پیغام ہے۔ "مجرم"‌ہر قوم کا مجرم ہوتا ہے اور "جرم" ہر قوم کے لئے یکساں ہے۔ "نظریاتی اختلافات پر موت کی سزا" دینا ایک نا اںصافی ہے۔

اللہ تعالی نے انسانوں کے ساتھ کئے جانے والے جرائم کی سزائیں تجویز کی ہیں اور اپنے ساتھ کیے جانے والے جرائم کا حساب خود دینے کا وعدہ کیا ہے۔ رسول اکرم کو جھتلانا اللہ کو جھتلانا ہے ، رسول کے ساتھ بدسلوکی یا بے عزتی اللہ کے ساتھ جرم ہے۔ اس کی سزا دینے کا حق انسانوں کو کہیں نہیں‌دیا گیا۔ کوشش و کاوش (‌جہاد)‌ کرنے کا حکم قوموں‌کے خلاف ہے جب و مسلمانوں‌پر حملہ کریں۔

ایک قاتل کے قتل کا یہ جواز کے اس کے اور مقتول کے نظریات میں فرق تھا، کوئی بامعنی جواز نہیں۔ ہم جذبات میں اندھے ہو کر انصاف کا دامن چھوڑ دیتے ہیں کیا آپ کسی یہودی یا عیسائی یا ہندو یا بدھ کی مخالفت کے جواب میں قتل ہونے پر تیار ہوجائیں گے؟ یا ُ‌اپنے بچے کو قتل کروا کر خوش ہونگے؟‌ اور کہتے پھریں گے کہ دیکھو میرا بیٹا کتنا خوش نصیب تھا کہ اس کو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے قتل کردیا گیا؟ آؤ خوشیاں‌مناتے ہیں؟ یقینا نہیں۔۔۔

قاتل کے قتل کی سزا اس کی تعریف اس لئے نہیں‌کہ وہ آُپ کے مسلک کا ہے۔ اور نہ ہی انصاف ایک قوم کے لئے الگ اور دوسری قوم کے لئے الگ ہے۔ اگر آپ کی کسی قوم سے سخت دشمنی بھی ہے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑیں۔

[ayah]5:8[/ayah]

[arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [/arabic]
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے
 
Top