یوم القدس اور ہم (عاطف بٹ)

عاطف بٹ

محفلین
آج پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یوم القدس منایا جارہا ہے۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے جو تقریباً ساڑھے چھے دہائیوں سے اسرائیل کی ننگی بربریت اور درندگی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس موقع پر کم و بیش کروڑوں مسلمان فلسطینیوں کے حق میں دعائیں مانگیں گے اور ساتھ ہی خدائے قادرِ مطلق سے یہ 'مطالبہ' بھی کیا جائے گا کہ اسرائیل کو تباہ و برباد کردے اور اس کا نام و نشان بھی دنیا میں باقی نہ چھوڑ۔ یہ دعائیں کس حد تک بار آور ثابت ہوں گی اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجئے کہ ساڑھے چھے دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چلا ہے مگر نہ تو بےچارے فلسطینیوں کو گلو خلاصی ملی اور نہ ہی اسرائیل نیست و نابود ہوا۔

مغرب کے حمایت یافتہ جارح اور بدمعاش اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا کردار بس دو طرح کا ہی ہے: ایک تو یہ کہ خاموش تماشائیوں کی مانندنہتے فلسطینیوں کو لقمۂ اجل بنتے ہوئے دیکھتے رہیں، اور دوسرا یہ کہ ربِ قہار سے ایسی دعائیں مانگتے رہیں جن کے جواب میں کسی نہ کسی طرح آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو اور خود ہی اسرائیل کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب ظاہر ہے ان دونوں کاموں میں بےعملی اور بدنیتی کا جو اعلیٰ امتزاج پایا جاتا ہے اس کے بعد نتیجہ کچھ اسی قسم کا برآمد ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک طویل عرصے سے ہورہا ہے۔

اسی بےعملی اور بدنیتی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ 8 جولائی سے شروع ہونے والی فلسطینیوں کی تازہ خونریزی، جس میں اب تک ساڑھے سات سو سے زائد معصوم لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں، کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتے سے سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر فلسطینیوں کے لئے پاکستانیوں کی طرف سے جو دعائیہ اظہاریے لکھے گئے اور تصاویر لگائی گئیں ان میں ایک ادھورا جملہ بہت تواتر سے پڑھنے کو ملا، "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما۔" ہم اس جملے کو ادھورا اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں اس اہم ترین وجہ کا ذکر ہی نہیں ہے جس کے باعث یہ دعا مانگی جارہی ہے۔ ہمارے خیال میں مذکورہ وجہ سمیت مکمل جملہ کچھ یوں ہونا چاہیے کہ "یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما کیونکہ دنیا کے طول و ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم مسلمان تو ہیجڑے ہیں جنہیں تو نے تالیاں پیٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔"

اس حوالے سے ایک بات تو طے ہے کہ عرب ممالک کے بےغیرت اور عیاش حکمران بےحسی اور خباثت میں پاکستانی سیاست دانوں کے بھی باپ ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے غلیظ اختلاط سے پیدا ہونے والا اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کے لئے بالعموم پوری دنیا کے مسلمان حکمران اور بالخصوص عرب ممالک کے شیوخ و رؤسا ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ایران جس نے 1979ء میں یوم القدس کو مسلمانوں کے ایک عالمی یوم کے طور پر منانے کا اعلان و آغاز کیا تھا اس کا بھی یہی حال ہے کہ باتیں واتیں جتنی چاہے کروا لو مگر اس سلسلے میں کسی عملی جدوجہد کا نام وہاں بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دن دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانیت کے جھوٹے دعویدار خوابِ غفلت سے جاگ گئے اس روز اسرائیل گولہ بارود برسانا تو دور کی بات ہے فلسطینیوں کے خلاف ایک جارحانہ بیان بھی نہیں دے سکے گا۔
 

اوشو

لائبریرین
عاطف بٹ جی آپ کی لکھی ہو ئی ایک ایک بات سے متفق ہوں۔ خاص کر

مغرب کے حمایت یافتہ جارح اور بدمعاش اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا کردار بس دو طرح کا ہی ہے: ایک تو یہ کہ خاموش تماشائیوں کی مانندنہتے فلسطینیوں کو لقمۂ اجل بنتے ہوئے دیکھتے رہیں، اور دوسرا یہ کہ ربِ قہار سے ایسی دعائیں مانگتے رہیں جن کے جواب میں کسی نہ کسی طرح آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو اور خود ہی اسرائیل کا قصہ تمام ہوجائے۔

اس حوالے سے ایک بات تو طے ہے کہ عرب ممالک کے بےغیرت اور عیاش حکمران بےحسی اور خباثت میں پاکستانی سیاست دانوں کے بھی باپ ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے غلیظ اختلاط سے پیدا ہونے والا اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے اس کے لئے بالعموم پوری دنیا کے مسلمان حکمران اور بالخصوص عرب ممالک کے شیوخ و رؤسا ذمہ دار ہیں۔

ایک عام مسلمان فلسطین کو لے کر صرف رونے اور دعا کرنے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے آپ کے خیال میں۔ جب کہ حکمرانوں کا حال آپ بیان کر چکے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
انتہائی کڑوا سچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما کیونکہ دنیا کے طول و ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم مسلمان تو ہیجڑے ہیں جنہیں تو نے تالیاں پیٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔"
بلاشک " امت " خرافات میں کھوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے دن ہی منائے جا رہے ہیں، احتجاج ہی کیا جا رہا ہے، جلوس ہی نکالے جا رہے ہیں، بیان بازیاں ہی ہو رہی ہیں، قرار دادیں ہی پاس ہو رہی ہیں۔
لیکن عملی طور پر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اور وہ اپنی من مانیاں کرتے جا رہے ہیں۔

ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ اس کا کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ اگر نہیں کریں گے تو فلسطین اور کشمیر میں یہی کچھ ہوتا رہے گا۔
 
ساری دنیا کے مسلمانوں کو بلاوجہ ہی رگید ڈالا ہے۔۔۔ ۔۔۔مذمت کے اصل حقدار تو مصری، اردنی، شامی، ترکی اور سعودی ممالک کی حکومتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کے بارڈر سیل کئے ہوئے ہیں۔۔۔پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور اسی طرح دوسرے دوردراز ممالک کے کروڑوں مسلمانوں اب اس بے بسی کے عالم میں فلسطینیوں کیلئے خلوص کے ساتھ اگر دعا بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
آج پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یوم القدس منایا جارہا ہے۔اس دن کے منائے جانے کا مقصد فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے جو تقریباً ساڑھے چھے دہائیوں سے اسرائیل کی ننگی بربریت اور درندگی کا سامنا کررہے ہیں
کیا فلسطین میں ساٹھ سال پہلے یا آج صرف مسلمان بستے ہیں؟

مغرب کے حمایت یافتہ جارح اور بدمعاش اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا کردار بس دو طرح کا ہی ہے: ایک تو یہ کہ خاموش تماشائیوں کی مانندنہتے فلسطینیوں کو لقمۂ اجل بنتے ہوئے دیکھتے رہیں، اور دوسرا یہ کہ ربِ قہار سے ایسی دعائیں مانگتے رہیں جن کے جواب میں کسی نہ کسی طرح آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو اور خود ہی اسرائیل کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب ظاہر ہے ان دونوں کاموں میں بےعملی اور بدنیتی کا جو اعلیٰ امتزاج پایا جاتا ہے اس کے بعد نتیجہ کچھ اسی قسم کا برآمد ہوسکتا ہے جیسا کہ ایک طویل عرصے سے ہورہا ہے۔
تیسرا اہم رول تو آپ بھول ہی گئے۔ فلسطینیوں کو مارنا۔ آخر 1948 میں ویسٹ بینک اور غزا پر اسرائیل نے تو قبضہ نہیں کیا تھا۔ فلسطین کی تاریخ کا خونریز ترین واقعہ اسرائیل نے نہیں بلکہ اردن نے 1970 میں پانچ ہزار فلسطینی مار کے کیا تھا۔ آج بھی اسے کالے ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن میں پاکستانی فوج بھی شامل تھی اور ایک بریگیڈیئر ضیاء الحق بھی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ جی آپ کی لکھی ہو ئی ایک ایک بات سے متفق ہوں۔ خاص کر



ایک عام مسلمان فلسطین کو لے کر صرف رونے اور دعا کرنے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے آپ کے خیال میں۔ جب کہ حکمرانوں کا حال آپ بیان کر چکے ہیں۔
یورپ اور امریکہ جہاں کی حکومتیں اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں وہاں دیکھئے کہ عام آدمی کا طرزِ عمل کیا ہے۔ کہیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے تو کہیں انٹرنیٹ پر باقاعدہ مضامین اور اپیلیں وغیرہ لکھ کر اسرائیل کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے۔ لیکن ہم لوگ کیا کررہے ہیں، آج دنیا کے بہت سے ممالک میں یوم القدس منایا جارہا ہے نا، آپ ابھی پاکستان کے کسی بڑے شہر میں واقع میکڈونلڈز اور کے ایف سی میں جا کر دیکھ لیجئے کہ وہاں پر کیا منظر ہے۔ عام مسلمان بہت کچھ کرسکتا ہے اگر کرنا چاہے تو!
 

عاطف بٹ

محفلین
انتہائی کڑوا سچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ، فلسطین کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرما کیونکہ دنیا کے طول و ارض پر پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم مسلمان تو ہیجڑے ہیں جنہیں تو نے تالیاں پیٹنے کے لئے پیدا کیا ہے۔"
بلاشک " امت " خرافات میں کھوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرافات کی وجہ سے ہی تو امت کی دعائیں بےاثر ہو کر رہ گئی ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے دن ہی منائے جا رہے ہیں، احتجاج ہی کیا جا رہا ہے، جلوس ہی نکالے جا رہے ہیں، بیان بازیاں ہی ہو رہی ہیں، قرار دادیں ہی پاس ہو رہی ہیں۔
لیکن عملی طور پر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اور وہ اپنی من مانیاں کرتے جا رہے ہیں۔

ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ اس کا کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ اگر نہیں کریں گے تو فلسطین اور کشمیر میں یہی کچھ ہوتا رہے گا۔
بالکل درست کہا شمشاد بھائی، اب واقعی ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ساری دنیا کے مسلمانوں کو بلاوجہ ہی رگید ڈالا ہے۔۔۔ ۔۔۔مذمت کے اصل حقدار تو مصری، اردنی، شامی، ترکی اور سعودی ممالک کی حکومتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کے بارڈر سیل کئے ہوئے ہیں۔۔۔پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور اسی طرح دوسرے دوردراز ممالک کے کروڑوں مسلمانوں اب اس بے بسی کے عالم میں فلسطینیوں کیلئے خلوص کے ساتھ اگر دعا بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔
خالی دعاؤں سے تو پھر یہی نتیجہ نکل سکتا ہے جو آج تک نکل رہا ہے۔ ہر کسی نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کہہ کر ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی کہ ہم تو چونکہ پاکستان میں رہتے ہیں لہٰذا ہمارا کام صرف دعاؤں تک محدود ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
کیا فلسطین میں ساٹھ سال پہلے یا آج صرف مسلمان بستے ہیں؟


تیسرا اہم رول تو آپ بھول ہی گئے۔ فلسطینیوں کو مارنا۔ آخر 1948 میں ویسٹ بینک اور غزا پر اسرائیل نے تو قبضہ نہیں کیا تھا۔ فلسطین کی تاریخ کا خونریز ترین واقعہ اسرائیل نے نہیں بلکہ اردن نے 1970 میں پانچ ہزار فلسطینی مار کے کیا تھا۔ آج بھی اسے کالے ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن میں پاکستانی فوج بھی شامل تھی اور ایک بریگیڈیئر ضیاء الحق بھی۔
صرف مسلمان نہیں بستے تھے اور نہ ہی آج محض مسلمان وہاں رہ رہے ہیں لیکن جن لوگوں کو مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کی غالب اکثریت اسلام سے وابستہ ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ اردن نے فلسطینیوں پر بےحد ظلم کیا اور اس سلسلے میں پاکستانی فوج بھی ملوث تھی۔ امیرالمؤمنین خود وہاں جا کر مومنین کی جنت الفردوس کی جانب روانگی کے کام کی نگرانی فرما رہے تھے۔
 
پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات پر اتفاق کیا ہے. چین اور روس دونوں نے اس قرارداد کی حمایت کی اور طویل خماری سے باہر آ کر سعودی عرب نے بھی 'ہاں' میں ووٹ ڈالا۔ جبکہ یورپین ممالک نے غیر حاضر رہنے میں عافیت جانی۔ صرف ایک ملک نےقرارداد کو مسترد کیا.. وہ ملک جو خود کو امن ساز کہلاتا ہے.

10487557_680748798666815_2266199964841375976_n.jpg
 

عاطف بٹ

محفلین
پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات پر اتفاق کیا ہے. چین اور روس دونوں نے اس قرارداد کی حمایت کی اور طویل خماری سے باہر آ کر سعودی عرب نے بھی 'ہاں' میں ووٹ ڈالا۔ جبکہ یورپین ممالک نے غیر حاضر رہنے میں عافیت جانی۔ صرف ایک ملک نےقرارداد کو مسترد کیا.. وہ ملک جو خود کو امن ساز کہلاتا ہے.

10487557_680748798666815_2266199964841375976_n.jpg
اور ہماری سادہ لوحی کا عالم دیکھیں کہ ہم دوا لینے کے لئے پھر اسی عطار کے لونڈے کے پاس جاتے ہیں۔
 
خالی دعاؤں سے تو پھر یہی نتیجہ نکل سکتا ہے جو آج تک نکل رہا ہے۔ ہر کسی نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کہہ کر ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی کہ ہم تو چونکہ پاکستان میں رہتے ہیں لہٰذا ہمارا کام صرف دعاؤں تک محدود ہے۔
پھر آپ بتائیے کہ کیا کرنا چاہئیے۔۔۔۔
 

عاطف بٹ

محفلین
پھر آپ بتائیے کہ کیا کرنا چاہئیے۔۔۔۔
اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انٹرنیٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی مستقل لائحہ عمل تشکیل دیں۔ ایسے اداروں کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کی جائے جو فلسطینیوں فلاح و بہبود کے لئے بین الاقوامی سطح پر سرگرمِ عمل ہیں۔ ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر ایسے گروہ تشکیل دیئے جائیں جو اپنے اپنے ممالک میں مثبت اور پُرامن طریقے سے کام کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈال سکیں کہ وہ اس حوالے سے عالمی سطح پر کوئی ٹھوس اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرے۔ یہ وہ تمام کام ہیں جو ہم میں سے ہر کوئی انفرادی حیثیت میں بھی کرسکتا ہے۔
 
اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔
پاکستان میں کونسی اسرائیلی مصنوعات بک رہی ہیں۔۔ ذرا انکی بھی نشاندہی کرتے جائیے۔۔۔
انٹرنیٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی مستقل لائحہ عمل تشکیل دیں۔ ایسے اداروں کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کی جائے جو فلسطینیوں فلاح و بہبود کے لئے بین الاقوامی سطح پر سرگرمِ عمل ہیں۔ ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر ایسے گروہ تشکیل دیئے جائیں جو اپنے اپنے ممالک میں مثبت اور پُرامن طریقے سے کام کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈال سکیں کہ وہ اس حوالے سے عالمی سطح پر کوئی ٹھوس اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرے۔ یہ وہ تمام کام ہیں جو ہم میں سے ہر کوئی انفرادی حیثیت میں بھی کرسکتا ہے۔
یہ کام تو پہلے سے ہی ہورہا ہے۔ کیا یہ سوشل میڈیا پر اسرائیل کی مذمت کا طوفان اور فلسطینیوں کی حمایت سے بھری ہوئی پوسٹوں کی بھرمار اس بات کی غماز نہیں ہے کہ انفرادی طور پر لوگ اپنی رائے کا اظہار کرکے احتجاجی مظاہرے کرکے اور کیا کر رہے ہیں؟۔۔۔ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی پر حکومتی سطح پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے محمود احمد غزنوی اور عاطف بٹ تو ان اداروں پر اپنی انفرادی حیثیت میں بلاواسطہ طور پر دباؤ ڈالنے سے تو رہے۔۔۔۔معاف کیجئے میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ کوئی اچھوتا خیال پیش کریں گے جو امتِ مسلمہ میں سے کسی کے ذہن میں ابھی تک نہ آیا ہو۔۔لیکن یہ تو کوئی نئی بات نہیں کی آپ نے اور جو تجویز پیش کی ہے اس پر پہلے سے ہی لوگ انفرادی سطح پر عمل پیرا ہیں۔۔۔۔چنانچہ وہ ہیجڑوں والا طعنہ تو وہیں کا وہیں رہا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ایک عام پاکستانی کونسی اسرائیلی مصنوعات استعمال کر رہا ہے؟
پاکستان میں کونسی اسرائیلی مصنوعات بک رہی ہیں۔۔ ذرا انکی بھی نشاندہی کرتے جائیے۔۔۔
پاکستان میں کھانے پینے کی ایسی بہت سی مصنوعات عام بکتی ہیں جو اسرائیلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار کردہ ہیں۔ ان مصنوعات کے ذریعے صرف پاکستان سے ہی ہر سال اربوں روپے کی آمدن حاصل کی جاتی ہے۔

یہ کام تو پہلے سے ہی ہورہا ہے۔ کیا یہ سوشل میڈیا پر اسرائیل کی مذمت کا طوفان اور فلسطینیوں کی حمایت سے بھری ہوئی پوسٹوں کی بھرمار اس بات کی غماز نہیں ہے کہ انفرادی طور پر لوگ اپنی رائے کا اظہار کرکے احتجاجی مظاہرے کرکے اور کیا کر رہے ہیں؟۔۔۔ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی پر حکومتی سطح پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے محمود احمد غزنوی اور عاطف بٹ تو ان اداروں پر اپنی انفرادی حیثیت میں بلاواسطہ طور پر دباؤ ڈالنے سے تو رہے۔۔۔۔معاف کیجئے میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ کوئی اچھوتا خیال پیش کریں گے جو امتِ مسلمہ میں سے کسی کے ذہن میں ابھی تک نہ آیا ہو۔۔لیکن یہ تو کوئی نئی بات نہیں کی آپ نے اور جو تجویز پیش کی ہے اس پر پہلے سے ہی لوگ انفرادی سطح پر عمل پیرا ہیں۔۔۔۔چنانچہ وہ ہیجڑوں والا طعنہ تو وہیں کا وہیں رہا۔
پوسٹوں کی بھرمار محض تصویریں شیئر کرنا اور اظہاریے لکھنا ہے بس، اس سے عالمی تو کیا مقامی سطح پر بھی کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ کروڑوں پڑھے لکھے مسلمان انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ان میں سے اگر دو چار ملین بھی ای میل کے ذریعے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کو اسرائیلی بربریت کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کریں تو یقیناً اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو دکھائی دے گا۔ اس کے علاوہ جو دو کام بتائیے ہیں اپنی اپنی حکومت پر مثبت طریقے سے دباؤ ڈالنا اور فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی مدد کرنا وہ بھی کئے جائیں۔
ہیجڑوں والا طعنہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ غیبی مدد وہاں آتی ہے جہاں لوگ پہلے خود کچھ کریں۔ اگر محض دعاؤں سے کام چل سکتا تو نبیِ مکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنگیں لڑنے کی بجائے دعاؤں پر ہی اکتفا کرتے۔
 
Top