یوسفی یوسفی صاحب کی کچھ تحاریر

آج کل کراچی میں کوئی مشاعرہ جس میں دوبئی یا کویت یا کنیڈا سے اپنے کسی رشتہ دار کی وفات پر آیا ہوا شاعر، شریک ہو جائے تو اُسے انٹرنیشنل مشاعرہ کہتے ہیں۔ہم نے ایک انٹرنیشنل مشاعرے میں بہت ہی حوصلہ مند نابینا شاعرہ کو ترنّم سے غزل پڑھتے سُنا ہے۔ظاہر ہے اُن کے نابینا ہونے پر کون اعتراض یا طنز کر سکتا ہے۔لیکن اس کو کیا کیجئے کہ وہ سامعین کو بالکل بہرہ سمجھ کر شعر پڑھتی ہیں۔ایسا ترنم روایتی ڈھول کی طرح دُور ہی سے برداشت کیا جا سکتا ہے۔پاس کا ڈھول صرف اس صورت میں سہانا لگتا ہے کہ آپ اسے خود بجا رہے ہوں۔ایک اور شاعرہ ہیں جو اکثر بین الاقوامی مشاعرے لُوٹتی رہتی ہیں۔وہ ایسا لباس پہن کر آتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اُن کے شوہر نابینا ہیں۔لوگ خود شاعرہ کو، مصرعِ طرح کی مانند اُٹھائے اُٹھائے پھرتے ہیں! اسی طرح دساور سے ایک معروف شاعر اکثر بلائے جاتے ہیں۔وہ اپنی ہر غزل راگ میں گا کر سناتے ہیں۔دُھن بھی خود ہی کمپوز کرتے ہیں۔جنانچہ بحر سے خارج مصرعے کو سُر سے بھی خارج کر دیتے ہیں۔ساتھ ہی، ہاتھ سے ایسے اشارے کرتے ہیں کہ شعر تہذیب سے بھی خارج ہو جاتا ہے! مگر سب سے زیادہ داد اُنھیں کو ملتی ہے۔ اس لیے کہ اشارے سب کی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔

(یُوسُفی)
 
مرزا کہتے ہیں کہ بدصورت انگریز عورت نایاب ہے۔بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔یعنی ہزار میں ایک۔پاکستانی اور ہندوستانی اُسی عورت سے شادی کرتا ہے!

(یُوسُفی/آب گم)

:laughing::laughing::laughing:
 

شمشاد

لائبریرین
یوسفی صاحب نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا ہے لاجواب لکھا ہے۔

ہم بھی سلسلہ یوسفیہ کے مرید ہیں۔
 
محفل میں ہمارے یارِ طرح دار اور البیلے شاعر ساقیؔ فاروقی بھی موجود تھے۔ پچیس سال سے لندن میں مقیم اور دوستوں سے برسرِ پیکار تھے۔اپنی آسٹرئین بیگم کو پیار میں غُنڈی اور اپنے کتے کو کامریڈ کے نام سے پکارتے۔کتا تو اپنے نام اور ساقی کے پیار کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو گیا۔مینڈک، کتے، خرگوش، بلّے وغیرہ پر بہت خوبصورت اور خیال انگیز نظمیں لکھی ہیں۔چار ٹانگوں سے کم کے کسی ذی روح سے ساقی محبت نہیں کرتے۔جب سے اُنھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں، ہم راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنی ٹانگیں ٹٹول ٹٹول کر گنتے ہیں کہ کہیں ہم اپنے بارے میں کسی مغالطے میں تو مبتلا نہیں! جس دن سے وہ ہم پر مہربان ہوئے ہیں، انھوں نے زمین پر قدم رکھنا چھوڑ دیا ہے۔مطلب یہ کہ ان کا ہر قدم، ہماری دستارِ فضیلت پر پڑتا ہے۔ساقی نازک مزاج ایسے کہ بور آدمی، خراب شعر اور نیک چلن عورت کو ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرتے!لندن کی ایک ادبی محفل میں ایک اسّی سالہ بزرگ شاعر اپنے استاد کا سو سوا سو اشعار پر مشتمل ایک نوح پڑھ رہے تھے۔ابھی آٹھ دس شعر ہی پڑھے ہوں گے کہ ساقی فاروقی نے اپنا ہاتھ اُٹھایا، پھر خود کھڑے ہوئے اور با آوازِ بلند فرمایا۔"اب آپ بیٹھ جائیے! آپ کے استاد تو آپ سے بھی زیادہ نالائق تھے!" یہ کہا اور واک آؤٹ کر کے نزدیک ترین پب میں بادہ نوشی کے لیے چلے گئے۔

یوسفی۔
(فروری 2011 کو لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھا گیا)
 
جون ایلیا کے بارے میں۔۔۔۔۔

اُسی نشست میں بھائی جون نے اظہارِ محبّت کے طریقے میں وہی جُملے دہرائے جو وہ اپنے مجموعہ "شاید" کے دیباچے میں لکھ چکے ہیں۔ (میں نے ان سے پوچھا کہ آپ محبّت کا اظہار کیسے کرتے ہیں تو اس کے جواب میں انہوں نے جواب دیا)۔وہ یہ کہ محبوبہ اگر سامنے سے آ رہی ہوتی تو میں اس کی طرف سے منہ پھیر لیتا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اے لڑکی! میں تم سے محبّت کرتا ہوں۔انہوں نے گردن موڑ کر اور دائیں ہاتھ سے بائیں آنکھ ڈھک کر بتایا کہ وہ منہ پھیر کر اس طرح شدید محبّت کا اظہار کرتے ہیں (خواتین اسے نوٹ کر لیں!)۔فرمایا کہ شریف مرد اور با عصمت عورتیں اسی طرح اعلانِ محبّت کرتی ہیں۔اظہارِ محبّت کا یہ طریقہ معلوم کر کے مجھے جو مسرّت ہوئی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ساری بد گمانیاں دور ہو گئیں۔میں صبح سویرے ساحلِ سمندر پر ٹہلنے جاتا ہوں۔میں بھی تو کہوں کہ یہ خوش شکل خواتین، مجھے آتا دیکھ کر کبھی پلّو کھینچ کر اور کبھی منہ پھیر کر دوسری طرف کیوں دیکھنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

یوسفی۔
(لاس اینجلس میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھا گیا)
 
بہت خوب۔ اتفاق یہ ہے کہ آج کل ہم نے یوسفی کا مجموعۂ آخر "آب گم" کو از سرِ نو دوبارہ آخر سے پڑھنا شروع کیا ہے۔ اس کتاب کا مزاج پہلی تین کتابوں سے بہت مختلف ہے (جس کی وجہ مجھے تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ یوسفی صاحب کی عمر میں یہ پہلی اور آخری کتاب کے مابین تقریباً ۳۰ برس کا اضافہ ہو گیا ہے - از راہ تفنن) ۔ پہلی مرتبہ زرگزشت کے بعد از اول پڑھی تو سمجھ نہ آئی۔ اب چند سال بعد دوبارہ اٹھائی ہے تو آخر سے پڑھ رہا ہوں۔ سوا ہی لطف دے رہی ہے۔
آپ نے بہت خوب دھاگہ کھول رکھا ہے۔ شاد رہیں آباد رہیں۔ یوں بھی جناب یوسفی کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔
 
مرزا کہتے ہیں کہ سچ بول کر ذلیل و خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔آدمی کو کم از کم صبر تو آجاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔

(یُوسُفی/آبِ گُم)
 
بعض اوقات احباب اس بات سے بُہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں اُن کےمشوروں پر عمل نہیں کرتا حالاں کہ اُن پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خُون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں ( اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اُور غلط مشورہ ملتا رہے۔اسی سے ذہنی توازُن قائم رہتا ہے۔ )

(یُوسُفی/چراغ تلے)
 
بعض اوقات احباب اس بات سے بُہت آزردہ ہوتے ہیں کہ میں اُن کےمشوروں پر عمل نہیں کرتا حالاں کہ اُن پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خُون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں ( اس لیے کہ میں دماغی صحت کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اُور غلط مشورہ ملتا رہے۔اسی سے ذہنی توازُن قائم رہتا ہے۔ )

(یُوسُفی/چراغ تلے)
بہترین
 
دیکھا گیا ہے کہ ایسے ویسے شوقیہ بھونکنے والے کُتوں کا سانس تو دو چار دفعہ ہی ٹیاؤں ٹیاؤں کرنے میں اُکھڑ جاتا ہے۔مگر یہ کُتا بقول مرزا، اردو میں بھونکتا تھا، یعنی بھونکتا ہی چلا جاتا تھا۔

(یُوسُفی/خاکم بدہن)
 
بارش اور ایسی بارش، ہم نے میسوری میں اپنی شادی کے دن دیکھی تھی کہ پلاؤ کی دیگوں میں بیٹھ کر دلھن والے آ جار ہے تھے. خود ہمیں ایک کفگیر پر بٹھا کر قاضی کے سامنے پیش کیا گیا. پھر نہ ہم نے ایسی حرکت کی اور نہ بادل ایسا ٹوٹ کے برسا. عجب سماں تھا! جدھر دیکھو پانی ہی پانی! اس دن سوائے دلھن کی آنکھ کے، ہمیں کوئی چیز خشک نظر نہ آئی. ہم نے ٹہوکا دیا کہ رخصتی کے وقت دلھن کا رونا رسومات میں داخل ہے. انھوں نے بہت پلکیں پٹپٹائیں مگر ایک آنسو نہ نکلا. پھر کار میں سوار کراتے وقت، ہم نے اپنا سہرا اپنے چہرے سے ہٹایا. خوب پھوٹ پھوٹ کے روئیں.

یوسفی (زرگزشت)
 
سنا ہے کہ شائستہ آدمی کی یہ پہچان ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے، کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔

یوسفی۔
(چراغ تلے)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
برطانیہ میں رہنے والے ایشیائیوں میں سو میں سے ننانوے ان خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے نہ جانے کب سے کھڑے ہیں۔
(رہا سواں آدمی ، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا)


(اقتباس: "آبِ گم" – مشتاق احمد یوسفی)
 
سردار جی نے مجھے سارا گھر دکھایا۔ بہوؤں نے لپک جھپک بکھری ہوئی چیزیں بڑے قرینے سے غلط جگہ رکھ دی تھیں۔ جو چیزیں عجلت میں رکھی نہ جا سکیں انھیں سمیٹ کر بیڈ پر ڈال دیا اور اوپر صاف چادر ڈال دی۔ چنانچہ گھر میں جہاں جہاں صاف چادر نظر آئی، میں تاڑ گیا کہ نیچے کاٹھ کباڑ دفن ہے۔ صاحب! curiosity بھی بری بلا ہے۔ ایک کمرے میں میں نے نظر بچا کر چادر کا کونا سرکایا تو نیچے سے سردار جی کے ماموں کیس کھولے ایک نہایت مختصر کچھنا پہنے برآمد ہوئے۔ ان کی داڑھی اتنی لمبی اور گھنگھور تھی کہ اس تکلف کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔

یوسفی۔
(آبِ گم)
 
Top