یوریکا ، میں نے پا لیا۔۔۔۔۔ عنیقہ ناز

عثمان

محفلین
سرکاری اسکول کی کارکردگی کے معائینے کو ایک انسپکٹرصاحب پہنچے اور ایک کلاس کا معائینہ کرتے ہوئے انہوں نے کلاس کے سب سے ذہین بچے سے پوچھا۔ 'ہمم، یہ بتاءو سومنات کا مندر کس نے توڑا؟'۔ گڈو میاں کا چہرہ فق ہو گیا۔ ایکدم روہانسے ہو گئےہکلاتے ہوئے کہنے لگے،' سر، قسم لے لیجئیے، میں نے نہیں توڑا'۔
انسپکٹر حیران ہوا کلاس ٹیچر سے کہنے لگا یہ گڈو میاں کیا کہہ رہے ہیں۔ ٹیچر نے انکی شکل دیکھی اور فرمایا' گڈو ایک بہت ذہین اور تمیز دار بچہ ہے میں اسے ذاتی طور پہ جانتا ہوں۔ یہ کبھی کسی توپھوڑ یا شرارت میں شامل نہیں ہوتا'۔
انسپکٹر نے انہیں ترحم والی نظروں سے دیکھا اور ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچا۔ اور انہیں گڈو میاں اور انکے ٹیچر کے جوابات سے مطلع کیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوری سنجیدگی سے انکی بات سنی اور ایک خاموشی کے بعد بولے۔' میں خود بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ گڈو ایسا بچہ نہیں ہے۔ میں اسے اور اسکے ٹیچر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ گڈو نے آج تک ایسا توڑ پھوڑ کا کوئ کام نہیں کیا۔

اب تو انسپکٹر صاحب کو اور تاءو آیا۔ اپنے آفس پہنچے اور محکمہ ء تعلیم کے نام خط لکھ ڈالا۔ اور اس میں تمام واقعے کا تذکرہ لکھا۔جواب آیا۔ محترم ہمیں آپکا خط ملا۔ اس میں کچھ توڑ پھوڑ کا تذکرہ تھا۔ اس لئے ہم نے اسے محکمہ ء تعمیرات کو بھیج دیا۔ امید ہے وہ آپکو تسلی بخش جواب دیں گے۔
یہی گڈو جب اسی تعلیمی نظام کے زیر سایہ پل کر بڑے ہوئے تو ملک میں ایک خاص نظریاتی ماحول تشکیل پا چکا تھا۔ اسکی رو سے ملک کے اندر مروجہ مذہبی تاریخ اور چیدہ چیدہ واقعات کے علاوہ تمام باتیں قابل سزا ٹہریں۔ ان سزاءووں کی بھی مختلف سطحیں بنادی گئیں تھیں۔ ملک کے انتظامی معاملات ہوں یا خارجہ امور، باشندوں کا رہن سہن ہو یا میل ملاپ، تفریح ہو یا تحقیق، ادب ہو یا تخلیق کا کوئ بھی میدان، وہ اس اثر سے خالی نہ تھا۔ اور نظام ان گڈو میاءووں سے بھرا ہواتھا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
مگر ایک دن ٹیکنالوجی اپنی ڈھٹائ کی وجہ سے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئ۔
گڈو میاں اور انکے ساتھیوں کے لئے یہ بڑا لمحہ ء فکریہ تھا۔ اس سے معاشرے کے تار پود بکھرنے کا اندیشہ تھا۔ سو وہ اپنی بساط بھر کوششیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یعنی کسی طرح تار وپود بچ جائیں وہ جو اس نظام کے تحت بنائے گئے جس میں انکی پرورش ہوئ تھی۔
لیکن ٹیکنالوجی اتنی خبیث چیز تھی کہ وہ ایکدن اسکا سر کاٹ کر قلع قمع کرتے اور دوسرے دن پھر وہ سر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہ ایک راز تھا۔ جو گڈو میاں اور ہمنواءووں کی سمجھ سے باہر تھا۔ اسکا حل انکے نزدیک بس اسکا سر کاٹنا ہی ٹہرا تھا۔ یوں ملک میں سر کاٹنے کے مختلف طریقوں پہ بحث اور عملدر آمد شروع ہوا۔
ایک دفعہ، گڈو میاں اور ساتھیوں نے اس ساری صورت حال پہ تبادلہ ء خیال کے لئے میٹنگ بلائ۔ جس میں ظاہری سی بات ہے کہ صرف وہ لوگ شامل تھے جو سر کاٹنے کے عمل سے متفق تھے۔ اس میں کسی نے یہ خیال پیش کیا کہ چونکہ ٹیکنالوجی سرحد پار کسی علاقے سے آئ ہے اس لئے اسکا سر کاٹنے کے مناسب طریقے بھی انکے پاس ہونگے۔ یہ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنے درمیان سے سب سے زیادہ سرگرم شخص کو ملک سے باہر بھیجا۔ تاکہ اس راز سے پردہ اٹھ سکے۔
وہ شخص ایکدن بعد ہی واپس آگیا۔ گڈو میاں خوش ہوئے انہیں اپنے ساتھی کی ذہانت پہ مکمل یقین تھا۔
لیکن ساتھی نے بتایا کہ وہ جیسے ہی سرحد سے باہر نکلا اسے ایک شخص ملا۔ اس نے جب اس سے بات کی تو اس شخص نے بتایا کہ وہ ٹیکنالوجی کے خالق ہیں۔ سو وہ وہیں رک کر اس سے معلومات حاصل کرنے لگا۔ اس نے بڑی عجیب بات کی اور کہا کہ مسلسل فکر اور عقل کے استعمال سے عقل اس سطح تک پہنچ جاتی ہے جہاں یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے۔ بس پھر اسکے بعد مسائل کے حل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
پھراس شخص نے اپنے ایک دانشور کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ پانی کے ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ ایک مسئلے کے بارے میں اس پہ ایکدم وجدان طاری ہوا۔ اور وہ فکر کی سر خوشی کے عالم میں یہ تک بھول گیا کہ وہ کپڑے نہیں پہنے ہوا اور اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کر ناچنے اور گانے لگا۔ یوریکا، یوریکا، میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک انسان فکر میں اتنا نہ ڈوب جائے کہ اپنی ذات کو بھول جائے کسی کام کی چیز کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ فکر کی اس گہرائ سے جب کوئ پردہ ہٹتا ہے تو انسان مست ہو کر ناچ اٹھتا ہے۔ اس کیفیت کو اب ہم یوریکا کہتے ہیں۔
گڈو میاں اور ہمنواءووں کا چہرہ فق ہو گیا۔ وہ روہانسے ہو کر بولے تو کیا اب ہمیں ننگا ہو کر گلی میں ناچنا پڑے گا۔
اسکے بعد کیا ہوا؟
کہانی ابھی جاری ہے۔ کیا گڈو میاں اور ہمنوا اصل راز جاننے میں کامیاب ہو گئے؟ کیا ٹیکنالوجی کا قلع قمع ہو گیا؟ کیا وہ لوگ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی رہنے لگے؟ یہ جاننے کے لئے پڑھئیے گڈو میاں کے کارنامے۔

ماخذ
 
:) واہ ،
بہت عمدہ تحریر ،

مجھے اگلی قسطوں میں ٹیگ ضرور کر دیجیے گا ، آخر پتہ تو چلے اگر گڈو نے بھی نہیں توڑا تو پھر توڑا کس نے تھا آخر وہ بت:battingeyelashes:
 

سید ذیشان

محفلین
اس پر تو محمود احمد غزنوی بھائی ہی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کس نے توڑا؟ ;)
محمود احمد غزنوی بھائی آپ ہی بتا دیں پھر کہ گڈو بیچارے نے بھی نہیں توڑا اس کے ٹیچرز اور پرنسپل تک نے بھی گواہی دے دی اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اتنے سینئر لوگ جھوٹ کی گواہی تھوڑی دیں گے تو پھر آخر وہ بت توڑا کس نے۔
 
اس پر تو محمود احمد غزنوی بھائی ہی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کس نے توڑا؟ ;)
محمود احمد غزنوی بھائی آپ ہی بتا دیں پھر کہ گڈو بیچارے نے بھی نہیں توڑا اس کے ٹیچرز اور پرنسپل تک نے بھی گواہی دے دی اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اتنے سینئر لوگ جھوٹ کی گواہی تھوڑی دیں گے تو پھر آخر وہ بت توڑا کس نے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
 

دوست

محفلین
اللہ عنیقہ ناز کو غریقِ رحمت کرے۔ ان کے قلم میں کاٹ بھی تھی اور وہ بھیڑ چال کا شکار اس معاشرے کی خوب خبر بھی لیتی تھیں۔
 

محمدظہیر

محفلین
سرکاری اسکول کی کارکردگی کے معائینے کو ایک انسپکٹرصاحب پہنچے اور ایک کلاس کا معائینہ کرتے ہوئے انہوں نے کلاس کے سب سے ذہین بچے سے پوچھا۔ 'ہمم، یہ بتاءو سومنات کا مندر کس نے توڑا؟'۔ گڈو میاں کا چہرہ فق ہو گیا۔ ایکدم روہانسے ہو گئےہکلاتے ہوئے کہنے لگے،' سر، قسم لے لیجئیے، میں نے نہیں توڑا'۔
کتنا معصوم جواب تھا بے چارے کا : )
دلچسپ بات ہے بچے توڑ پھوڑ کرنے کو غلط سمجھتے ہیں
 
Top