مکمل یزید (افسانہ) ۔ سعادت حسن منٹو

فرخ منظور

لائبریرین
یزید
(سعادت حسن منٹو)

سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے بالکل اسی طرح جس طرح موسم میں خلاف معمول چند دن خراب آئیں اور چلے جائیں۔ یہ نہیں کہ کریم داد مولا کی مرضی سمجھ کر خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ مخالف قوتوں کیساتھ وہ کئی بار بھڑا تھا۔ شکست دینے کیلئے نہیں صرف مقابلہ کرنے کیلئے۔ اسکو معلوم تھا کہ دشمنوں کی طاقت بہت زیادہ ہے مگر ہتھیار ڈال دینا وہ اپنی ہی نہیں ہر مرد کی توہین سمجھتا تھا۔ سچ پوچھیے تو اسکے متعلق یہ صرف دوسروں کا خیال تھا۔ انکا جنہوں نے اسے وحشی نما انسانوں سے بڑی جاں بازی سے لڑتے دیکھا تھا ورنہ اگر کریم داد سے اس بارے میں پوچھا جاتا کہ مخالف قوتوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنا کیا وہ اپنی یا مرد کی توہین سمجھتا ہے۔ وہ یقیناً سوچ میں پڑ جاتا جیسے آپ نے اس سے حساب کا کوئی بہت ہی مشکل سوال کر دیا ہے۔
کریم داد جمع تفریق اور ضرب تقسیم سے بالکل بے نیاز تھا۔ سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے، لوگوں نے بیٹھ کر حساب لگانا شروع کیا کہ کتنا جانی نقصان ہوا ہے کتنا مالی مگر کریم داد اس سے بالکل الگ تھلگ رہا۔ اسکو صرف اتنا معلوم تھا کہ اسکا باپ رحیم داد اس جنگ میں کام آیا ہے۔ اسکی لاش خود کریم داد نے اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی اور ایک کنوئیں کے پاس گڑھا کھود کر دفنائی تھی۔

گاؤں میں اور بھی کئی وارداتیں ہوئی تھیں سینکڑوں جوان اور بوڑھے قتل ہوئے تھے کئی لڑکیاں غائب ہوئی تھیں کچھ کہ بہت ظالمانہ طریقے سے بے آبرو ہوئی تھیں۔ جس کے بھی یہ زخم آئے تھے روتا تھا اپنے پھوٹے نصیبوں اور دشمنوں کی بے رحمی پر مگر کریم داد کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا۔ اپنے باپ رحیم داد کی شہہ زوری پر اسے ناز تھا جب وہ پچیس تیس برچھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح بلوائیوں کا مقابلہ کرتے کرتے نڈھال ہو کر گر پڑا تھا اور کریم داد کو اسکی موت کی خبر ملی تو اس نے اسکی روح کو مخاطب کر کے صرف اتنا کہا تھا ” یار تم نے یہ ٹھیک نہ کیا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک ہتھیار اپنے پاس ضرور رکھا کرو۔”
اور اس نے رحیم داد کی لاش اٹھا کر کنوئیں کے پاس گڑھا کھود کر دفنا دی تھی اور اسکے پاس کھڑے ہو کر فاتحہ کے طور پر صرف یہ چند الفاظ کہے تھے۔ ” گناہ ثواب کا حساب خدا جانتا ہے اچھا تجھے بہشت نصیب ہو۔”

رحیم داد جو نہ صرف اسکا باپ تھا بلکہ ایک بہت بڑا دوست بھی تھا۔ بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لوگ جب اسکی افسوسناک موت کا ذکر کرتے تو قاتلوں کو بڑی گالیاں دیتے تھے مگر کریم داد خاموش رہتا تھا۔ اس کی کئی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ دو مکان جل کر راکھ ہو گئے تھے مگر اس نے اپنے ان نقصانوں کا کبھی حساب نہیں لگایا تھا۔ وہ کبھی کبھی صرف اتنا کہا کرتا تھا” جو کچھ ہوا ہماری اپنی غلطی سے ہوا ہے۔” اور جب کوئی اس سے اس غلطی کے متعلق استفسار کرتا تو وہ خاموش رہتا۔

گاؤں کے لوگ ابھی سوگ میں صروف تھے کہ کریم داد نے شادی کر لی۔ اسی مٹیار جیناں کیساتھ جس پر ایک عرصے سے اسکی نگاہ تھی۔ جیناں سوگوار تھی۔ اسکا شہتیر جیسا کڑیل جوان بھائی بلووں میں مارا گیا تھا۔ ماں باپ کی موت کے بعد ایک صرف وہی اسکا سہارا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیناں کو کریم داد سے بے پناہ محبت تھی مگر بھائی کی موت کے غم نے یہ محبت اسکے دل میں سیاہ پوش کر دی تھی اب ہر وقت اسکی سدا مسکراتی آنکھیں غمناک رہتی تھیں۔
کریم داد کو رونے دھونے سے بہت چڑ تھی۔ وہ جیناں کو جب بھی سوگ زدہ حالت میں دیکھتا تو دل ہی دل میں بہت کڑھتا مگر وہ اس سے اس بارے میں کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہ سوچ کر عورت ذات ہے ممکن ہے اسکے دل کو اور زیادہ دکھ پہنچے مگر اس روز اس سے رہا نہ گیا۔ کھیت میں اس نے جیناں کو پکڑ لیا اور کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مردوں کو کفنائے دفنائے پورا ایک سال ہو گیا ہے اب تو وہ بھی اس سوگ سے گبھرا گئے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ میری جان! اب زندگی میں جانے اور کتنی موتیں دیکھنی ہیں۔ کچھ آنسو تو اپنی آنکھوں میں جمع رہنے دے۔”

جیناں کو اسکی یہ باتیں بہت ناگوار معلوم ہوتی تھیں مگر وہ اس سے محبت کرتی تھی اس لیے اکیلے میں اس نے کئی گھنٹے سوچ سوچ کر اسکی باتوں میں معنی پیدا کیے اور آخر خود کو یہ سمجھنے پر آمادہ کر لیا کہ کریم داد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔
شادی کا سوال آیا تو بڑے بوڑھوں نے مخالفت کی مگر یہ مخالفت بہت ہی کمزور تھی وہ لوگ سوگ منا منا کر اتنے نحیف ہو گئے تھے کہ ایسے معاملوں میں سو فیصدی کامیاب ہونیوالی مخالفتوں پر بھی زیادہ دیر تک نہ جمے رہ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ کریم داد کا بیاہ ہو گیا۔ باجے گاجے آئے ہر رسم ادا ہوئی اور کریم داد اپنی محبوبہ جیناں کو دلہن بنا کر گھر لے آیا۔
فسادات کے بعد قریب قریب ایک برس سے سارا گاؤں قبرستاں سا بنا تھا جب کریم داد کی برات چلی اور خوب دھوم دھڑکا ہوا تو گاؤں کے کئی آدمی سہم گئے۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کریم داد کی نہیں کسی بھوت پریت کی برات ہے۔ کریم داد کے دوستوں نے جب اسکو یہ بات بتائی تو وہ خوب ہنسا۔ ہنستے ہنستے ہی اس نے ایک روز اسکا ذکر اپنی نئی نویلی دلہن سے کیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ اٹھی۔

کریم داد نے جیناں کی سوہے جوڑے والی کلائی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا، یہ بھوت تو اب ساری عمر تمہارے ساتھ چمٹا رہیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمان سائیں کی جھاڑ پھونک بھی اتار نہیں سکیگی۔
جیناں نے اپنی مہندی میں رچی ہوئی انگلی دانتوں تلے دبا کر اور ذرا شرما کر صرف اتنا کہا۔ کیمے تجھ کو کسی سے بھی ڈر نہیں لگتا۔
کریم داد نے اپنی ہلکی ہلکی سیاہی مائل بھوری مونچھوں پر زبان کی نوک پھیری اور مسکرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈر بھی کوئی لگنے کی چیز ہے؟
جیناں کا غم اب بہت حد تک دور ہو چکا تھا۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ کریم داد اسکی جوانی کا نکھار دیکھتا تو بہت خوش ہوتا اور جیناں سے کہنا” خدا کی قسم جیناں تو پہلے کبھی اتنی خوبصورت نہیں تھی اگر تو اتنی خوبصورت اپنے ہونیوالے بچے کیلئے بنی ہے تو میری اس سے لڑائی ہو جائیگی۔ ”
یہ سن کر جینان شرما کر اپنا ٹھلیا سا پیٹ چادر میں چھپا لیتی کریم داد ہنستا اور اسے چھیڑتا” چھپاتی کیوں ہو اس چور کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا جانتا نہیں کہ یہ سب بناؤ سنگھار صرف تم نے اسی سور کے لیے کیا ہے۔
جیناں ایک دم سنجیدہ ہو جاتی۔” کیوں گالی دیتے ہو اپنے کو؟
کریم داد کی سیاہی مائل مونچھیں ہنسی سے تھرتھرانے لگتیں ” کریم داد بہت بڑا سور ہے۔ ”
چھوٹی عید آئی، بڑی عید آئی، کریم داد نے یہ دونوں تہوار بڑے ٹھاٹ سے منائے، بڑی عید سے بارہ روز پہلے اسکے گاؤں پر بلوائیوں نے حملہ کیا تھا اور اسکا باپ رحیم داد اور جیناں کا بھائی فضل الہٰی قتل ہوئے تھے۔ جیناں ان دونوں کی موت کو یاد کر کے بہت روئی تھی مگر کریم داد کی صدموں کو یاد رکھنے والی طبیعت کی موجودگی میں اتنا غم نہ کر سکی جتنا اسے اپنی طبیعت کے مطابق کرنا چاہیے تھے۔
جیناں کبھی سوچتی تو اسکو بڑا تعجب ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی اپنی زندگی کا اتنا بڑا صدمہ کیسے بھولتی جا رہی ہے۔ ماں باپ کی موت تو اسکو قطعاً یاد نہیں تھی۔ فضل الہٰی اس سے چھ سال بڑا تھا۔ وہی اسکا باپ تھا وہی اسکی ماں اور وہی اسکا بھائی۔ جیناں اچھی طرح جانتی تھی کہ صرف اسی کی خاطر اس نے شادی نہیں کی اور اپنی جان دیدی۔ اسکی موت جیناں کی زندگی کا یقیناً بہت ہی بڑا حادثہ تھا۔ ایک قیامت جو بڑی عید سے ٹھیک بارہ روز پہلے اس پر یکایک ٹوٹ پڑی تھی۔ اب وہ اسکے بارے میں سوچتی تھی تو اسکو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ وہ اسکے اثرات سے کتنی دور ہوتی جا رہی ہے۔
محرم قریب آیا تو جیناں نے کریم داد سے اپنی پہلی فرمائش کا اظہار کیا کہ اسے تعزیے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ اپنی سہیلیوں سے وہ انکے متعلق بہت کچھ سن چکی تھی۔ چنانچہ اس نے کریم داد سے کہا۔ ” میں ٹھیک ہوئی تو لے چلو گے مجھے تعزیہ دکھانے۔؟
کریم داد نے مسکرا کر جواب دیا۔ ” تم ٹھیک نہ بھی ہوئیں تو بھی لے چلوں گا۔ اس سور کے بچے کو بھی۔
جیناں کو یہ گالی بہت ہی بری لگتی تھی چنانچہ وہ اکثر بگڑ جاتی تھی۔ مگر کریم داد کی گفتگو کا انداز کچھ ایسا پرخلوص تھا کہ جیناں کی تلخی فوراً ہی ایک ناقابل بیان مٹھاس میں تبدیل ہو جاتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ سور کے بچے میں کتنا پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کی افواہیں ایک عرصے سے اڑ رہی تھیں۔ اصل میں تو پاکستان بنتے ہی یہ بات گویا ایک طور پر طے ہو گئی تھی کہ جنگ ہو گی اور ضرور ہو گی۔ کب ہو گی اسکے متعلق گاؤں میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ کریم داد سے جب کوئی اسکے متعلق سوال کرتا تو وہ یہ مختصر سا جواب دیتا۔ ” جب ہونی ہو گی ہو جائیگی فضول سوچنے سے کیا فائدہ؟
جیناں جب اس ہونیوالی لڑائی بھڑائی کے متعلق سنتی تو اسکے اوسان خطا ہو جاتے تھے وہ طبعاً بہت ہی امن پسند تھی۔ معمولی تو تو میں میں سے بھی سخت گھبراتی تھی۔ اسکے علاوہ گزشتہ بلووں میں اس نے کئی کشت وخوں دیکھے تھے اور انہی میں اسکا پیارا بھائی فضل الٰہی کام آیا تھا۔ بے حد سہم کر وہ کریم داد سے اتنا کہتی ” کیمے کیا ہو گا؟
کریم داد مسکرا دیتا۔ ” مجھے کیا معلوم لڑکا ہو گا یا لڑکی۔؟
یہ سن کر جیناں بہت ہی زچ ہوتی مگر فوراً ہی کریم داد کی دوسری باتوں میں لگ کر ہونیوالی جنگ کے متعلق سب کچھ بھول جاتی۔ کریم داد طاقتور تھا نڈر تھا جیناں سے اسکو بے حد محبت تھی۔ بندوق خریدنے کیبعد وہ تھوڑے ہی عرصے میں نشانے کا بہت پکا ہو گیا تھا۔ یہ سب باتیں جیناں کو حوصلہ دلاتی تھیں مگر اسکے باوجود ترنجنوں میں جب وہ اپنی کسی خوف زدہ ہمجولی سے جنگ کے بارے میں گاؤں کے آدمیوں کی اڑائی ہوئی ہولناک افواہیں سنتی تو ایک دم سن سی ہو جاتی۔

بختو دائی جو ہر روز جیناں کو دیکھنے آتی تھی ایک دن یہ خبر لائی کہ ہندوستان
والے دریا بند کرنے والے ہیں۔ جیناں اسکا مطلب نہ سمجھی۔ وضاحت کیلئے اس نے بختو دائی سے پوچھا۔ ” دریا بند کرنیوالے ہیں۔؟” یہ کون سے دریا بند کرنے والے ہیں؟
بختو دائی نے جواب دیا۔’وہ جو ہمارے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں۔
جیناں نے کچھ دیر سوچا اور ہنس کر کہا۔ موسی کیا تم بھی پاگلوں کی سی باتیں کرتی ہو دریا کون بند کر سکتا ہے وہ بھی کوئی موریاں ہیں؟
بختو نے جیناں کے پیٹ پر ہولے مالش کرتے ہوئے کہا۔
بی بی مجھے معلوم نہیں جو کچھ میں نے سنا تھا تمہیں بتا دیا۔ یہ بات اب تو اخباروں میں بھی آ گئی ہے۔
کون سی بات؟ جیناں کو یقین نہیں آتا تھا۔
بختو نے اپنے جھریوں والے ہاتھ سے جیناں کا پیٹ ٹٹولتے ہوئے کہا۔ یہ دریا بند کرنیوالی ۔ پھر اس نے جیناں کے پیٹ پر اسکی قمیض کھینچی اور اٹھ کر بڑے ماہرانہ انداز میں کہا۔ اللہ خیر رکھے بچہ آج سے پورے دس روز کیبعد ہو جانا چاہیے۔
کریم داد گھر آیا تو سب سے پہلے جیناں نے اس سے دریاؤں کے متعلق پوچھا اس نے پہلے بات ٹالنی چاہی پر جب جیناں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا تو کریم داد نے کہا ہاں کچھ ایسا ہی سنا ہے۔
جیناں نے پوچھا۔ کیا؟
یہی کہ ہندوستان والے ہمارے دریا بند کر دینگے۔
کیوں؟
کریم داد نے جواب دیا کہ ہماری فصلیں تباہ ہو جائیں۔
یہ سن کر جیناں کو یقین ہو گیا کہ دریا بند کیے جا سکتے ہیں چنانچہ نہایت بے چارگی کے عالم میں اس نے صرف اتنا کہا” کتنے ظالم ہیں یہ لوگ۔”
کریم داد اس دفعہ کچھ دیر کیبعد مسکرایا۔ ہٹاؤ اسکو یہ بتاؤ موسی بختو آئی تھی۔
جیناں نے بے ادبی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی تھی۔
کیا کہتی تھی؟
کہتی تھی آج سے پورے دس روز کیبعد بچہ ہو جائیگا۔
کریم داد نے زور کا نعرہ لگایا، زندہ باز۔
جیناں نے اسے پسند نہ کیا اور بڑبڑائی، تمہیں خوشی سوجھتی ہے جانے یہاں کیسی بلا آنیوالی ہے۔

کریم داد چوپال چلا گیا۔ وہاں قریب قریب سب مرد جمع تھے۔ چوہدری نتھو کو گھیرے اس سے دریا بند کرنے والی خبر کے متعلق باتیں پوچھ رہے تھے۔ کوئی پنڈت نہرو کو پیٹ بھر کے گالیاں دے رہا تھا۔ کوئی بددعائیں مانگ رہا تھا کوئی یہ ماننے ہی سے یکسر منکر تھا کہ دریاؤں کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔
کچھ ایسے بھی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ جو کچھ ہونیوالا ہے وہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ اسے ٹالنے کیلئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مل کر مسجد میں دعا مانگی جائے۔
کریم داد ایک کونے میں بیٹھا خاموش سنتا رہا۔ ہندوستان والوں کو گالیاں دینے میں چوہدری نتھو سب سے پیش پیش تھا۔ کریم داد کچھ اسطرح سے بار بار اپنی نشست بدل رہا تھا جیسے اسے بہت کوفت ہو رہی ہے۔ سب بیک زبان ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ دریا بند کرنا بہت ہی اوچھا ہتھیار ہے۔ انتہائی کمینہ پن ہے، ذلالت ہے، عظیم ترین ظلم ہے، بدترین گناہ ہے، یزید پن ہے۔
کریم داد دو تین مرتبہ اسطرح کھانسا جیسے وہ کچھ کہنے کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے۔ چوہدری نتھو کے منہ سے جب ایک اور لہر موٹی موٹی گالیوں کی اٹھی تو کریم داد چیخ پڑا۔ گالی نہ دے چوہدری کسی کو۔
ماں کی ایک بہت بڑی گالی چوہدری نتھو کے حلق میں پھنسی رہ گئی اس نے پلٹ کر ایک عجیب انداز سے کریم کیطرف دیکھا جو سر سے اپنا صافہ ٹھیک کر رہا تھا۔ کیا کہا؟
کریم داد نے آہستہ مگر مضبوط آواز میں کہا۔ میں نے کہا گالی نہ دے کسی کو۔
حلق میں پھنسی ہوئی ماں کی گالی بڑے زور سے باہر نکال کر چوہدری نتھو نے بڑے تیکھے لہجے میں کریم داد سے کہا۔ کسی کو؟ کیا لگتے ہیں وہ تمہارے؟ اس کے بعد وہ چوپال میں جمع شدہ آدمیوں سے مخاطب ہوا۔ سنا تم لوگوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے گالی نہ دو کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھو اس سے وہ کیا لگتے ہیں اسکے ؟
کریم داد نے بڑے تحمل سے جواب دیا، میرے کیا لگتے ہیں؟ میرے دشمن لگتے ہیں۔
چوہدری کے حلق سے پھٹا پھٹا سا قہقہ بلند ہوا۔ اس قدر زور سے کہ اسکی مونچھوں کے بال بکھر گئے۔ سنا تم لوگوں نے دشمن لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دشمن کو پیار کرنا چاہیے کیوں برخوردار۔
کریم داد نے بڑے برخوردارانہ انداز میں جواب دیا۔ نہیں چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پیار کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ گالی نہیں دینی چاہیے۔
کریم داد کیساتھ ہی اسکا لنگوٹیا دوست میراں بخش بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا کیوں؟
کریم داد صرف میراں بخش سے مخاطب ہوا۔ کیا فائدہ ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پانی بند کر کے تمہاری زمینوں کو بنجر بنانا چاہتے ہیں اور تم انہیں گالی دیکر یہ سمجھتے ہو کہ حساب بے باق ہوا۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ گالی تو اسوقت دی جاتی ہے جب اور کوئی جواب پاس نہ ہوا۔
میراں بخش نے پوچھا۔ تمہارے پاس کوئی جواب موجود ہے؟
کریم داد نے تھوڑے توقف کیبعد کہا۔” سوال میرا نہیں ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں کا ہے۔ اکیلا میرا جواب سب کا جواب نہیں ہو سکتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے معاملوں میں سوچ سمجھ کر ہی کوئی پختہ جواب تیار کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دن میں دریاؤں کا رخ نہیں بدل سکتے۔ سال لگیں گے لیکن یہاں تو تم لوگ گالیاں دیکر ایک منٹ میں اپنی بھڑاس نکال باہر کر رہے ہو۔ پھر اس نے میراں بخش کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے خلوص کیساتھ کہا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں یار کہ ہندوستان کو کمینہ ذلیل اور ظالم کہنا بھی غلط ہے۔ ”
میراں بخش کی بجائے چوہدری نتھو چلایا، لو اور سنو۔
کریم داد میراں بخش ہی سب سے مخاطب رہا” دشمن سے میرے بھائی رحم و کرم کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ لڑائی شروع ہو اور یہ رونا رویا جائے کہ دشمن بڑے بور کی رائفلیں استعمال کر رہا ہے ہم چھوٹے بم گراتے ہیں وہ بڑے گراتا ہے۔ تم اپنے ایمان سے کہو یہ شکایت بھی کوئی شکایت ہے چھوٹا چاقو بھی مارنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور بڑا چاقو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔

میراں بخش کی بجائے چوہدری نتھو نے سوچنا شروع کیا۔ مگر فوراً ہی جھنجھلا گیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پانی بند کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتے ہیں۔
کریم داد نے میراں بخش کے کاندھے سے اپنا ہاتھ علیحدہ کیا اور چوہدری نتھو سے مخاطب ہوا، چوہدری جب کسی کو دشمن کہہ دیا تو پھر یہ گلہ کیسا کہ وہ ہمیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتا ہے۔ وہ تمہیں بھوکا پیاسا نہیں ماریگا۔ تمہاری ہری بھری زمینیں ویران اور بنجر نہیں بنائیگا تو کیا وہ تہمارے لیے پلاؤ کی دیگیں اور شربت کے مٹکے وہاں سے بھیجے گا تمہاری سیر تفریح کیلئے یہاں باغ باغیچے لگائے گا۔
چوہدری نتھو بھنا گیا، یہ تو کیا بکواس کر رہا ہے۔
میراں بخش نے ہولے سے کریم داد سے پوچھا، ہاں یار یہ کیا بکواس ہے؟
بکواس نہیں ہے میراں بخشا۔” کریم داد نے سمجھانے کے انداز میں میراں بخش سے کہا۔ تو ذرا سوچ تو سہی کہ لڑائی میں دونوں فریق ایکدوسرے کو پچھاڑنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے جب لنگر لنگوٹ کس کے اکھاڑے میں اتر آئے تو اسے ہر داؤ استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔
میراں بخش نے اپنا گھٹا ہوا سر ہلایا۔ یہ تو ٹھیک ہے۔
کریم داد مسکرایا، تو پھر دریا بند کرنا بھی ٹھیک ہے۔ ہمارے لیے یہ ظلم ہے مگر انکے لیے روا ہے۔
روا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تیری جیب پیاس کے مارے لٹک کر زمین تک آ جائیگی تو میں پھر پوچھوں گا کہ ظلم روا ہے یا ناروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تیرے بال بچے اناج کے ایک ایک دانے کو ترسیں گے تو پھر بھی یہی کہنا کہ دریا بند کرنا بالکل ٹھیک تھا۔
کریم داد نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔” میں جب بھی یہی کہوں گا چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ صرف وہ ہمارا دشمن نہیں ہے کیا ہم اسکے دشمن نہیں۔ اگر ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم نے بھی اسکا دانہ پانی بند کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کہ وہ کر سکتا ہے اور کرنیوالا ہے تو ہم ضرور اسکا کوئی توڑ سوچیںگے۔۔۔۔۔۔ بیکار گالیاں دینے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشمن تمہارے لیے دودھ کی نہریں جاری نہیںکریگا چوہدری نتھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ہو سکا تو وہ تمہارے پانی کی ہر بوند میں زہر ملا دیگا تم اسے ظلم کہو گے وحشیانہ پن کہو گے اس لیے کہ مارنے کا یہ طریقہ تمہیں پسند نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب سی بات ہے کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے دشمن سے نکاح کی سی شرطیں پڑھوائی جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے کہا جائے کہ دیکھو مجھے بھوکا پیاسا نہ مارنا بندوق سے اور وہ بھی اتنے بور کی بندوق سے البتہ تم مجھے شوق سے ہلاک کر سکتے ہو۔ اصل بکواس تو یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو۔
چوہدری نتھو جھجھلاہٹ کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ برف لا کے رکھ میرے دل پر۔
یہ بھی میں ہی لاؤں یہ کہہ کر کریم داد ہنسا۔ میراں بخش کے کاندھے پر تھپکی دیکر اٹھا اور چوپال سے چلا گیا۔

گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ اندر سے بختو دائی نکلی۔ کریم داد کو دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر پوپلی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک ہو کیمے چاند سا بیٹا ہوا ہے اب کوئی اچھا سا نام سوچ اسکا۔
نام؟ کریم داد نے ایک لخطے کیلئے سوچا، یزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یزید۔
بختو دائی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

کریم داد نعرے لگاتا گھر میں داخل ہوا۔ جیناں چاپائی پر لیٹی تھی۔ پہلے سے کسی قدر زرد اسکے پہلو میں ایک گل گوتھنا سا بچہ چپڑ چپڑ اپنا انگوٹھا چوس رہا تھا۔ کریم داد نے اسکیطرف پیار بھری نظروں سے دیکھا اور اسکے گال کو ایک انگلی سے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ” اوئے میرے یزید!
کریم داد نے غور سے اپنے بیٹے کا ناک نقشہ دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں یزید۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسکا نام ہے۔
جیناں کی آواز بہت نحیف ہو گئی۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو کیمے۔۔۔۔۔۔۔ یزید؟
کریم داد مسکرایا، کیا ہے اس میں؟ نام ہی تو ہے؟
جیناں صرف اسقدر کہہ سکی۔ مگر کس کا نام؟
کریم داد نے سنجیدگی سے جواب دیا، ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دریا کا پانی بند کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھولے گا۔

اکتوبر 1951ء
 
Top