فارسی شاعری یا رب ز جنوں طرح ۔غمے در نظرم ریز

ضیاءالقمر

محفلین
یا رب ز جنوں طرح ۔غمے در نظرم ریز
صد بادیہ در قالب دیوار و درم ریز

ؒؒلغت: "طرح ریختن"طرح بنیاد کو کہتے ہیں ۔مجازاً صورت اور نمونہ طرح ریختن= بنیاد رکھنا ۔
اے خدا میری نظر میں جنون غم کی بنیاد رکھ دے ،میرے درودیوار کے قالب میں سینکڑوں بیاباں ڈال دے۔
میرے غم عشق میں جنوں کی ایسی کیفیت پیدا کردے کہ مجھے اپنے گھر کے درودیوار بیاباں نظر آئیں۔
از مہر جہاں تاب اُمید نظرم نیست
ایں تشت پُر از آتشِ سوزاں بسرم ریز

مہر جہاں تاب کو دہکتی ہوئی آگ سے بھرے ہوئے تھال سے تشبیہ دی ہے۔ اس دنیا کو روشن کرنے والے سورج سے مجھے مہربانی کی نظر کی امید نہیں، اس جلا دینے والی آگ کے بھرے ہوئے تھال کو میرے سر پر گرا دے۔
سورج نکلتا ہے تو آنکھوں میں روشنی آتی ہے لیکن ایک غمزہ انسان کے لیے جو غم کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہو ،سورج سے سوائے تمازت اور آگ کے کیا میسر آسکتا ہے۔
دل را ز غم گریہء بے رنگ بجوش آر
اجزاے جگر حل کن و در چشم ترم ریز

لغت: گریہء بے رنگ= ایسی اشک ریزی جس میں خون کی آمیزش نہ ہو ،بے دلی کے ساتھ رونا۔
آنسو بے رنگ ہو کر رہ گئے ہیں،دل پر ایک بے دلی کا عالم طاری ہےاور مجھے اس کا غم ہے اس غم سے میرے دل میں ایک تڑپ پیدا کر اور میرے جگر کے اجزا کو حل کر کے میری نمناک آنکھوں میں ڈال دے تاکہ خون کا ایک سیلاب آنکھوں سے بہ نکلے اور یہ بے دلی دور ہو ۔
ھر برق کہ نظارہ گداز است نہادش
بگداز و بہ پیمانہء ذوق ِ نظرم ریز

ہر ایسی برق کہ جس کی طینت (نہاد)نظارے کو گداز کر دیتی ہو،لا اور اُسے پگھلا کر میرے ذوق نظر کے پیمانے میں ڈال دے۔
یعنی میرا ذوق نظر اتنا تیز کر دے کہ بجلیوں کے نظارے کی تاب لانا تو در کنار، اُن بجلیوں کی تجلی اور گداز میری آنکھوں کا جز بن جائے۔
سرمست مے لذتِ دردم ،بخرام آر
ایں شیشہء دل بشکن و در راہگزرم ریز

میں تیرے درد عشق کی لذت میں سرشار ہوں، اس سرشاری کے عالم میں مجھے رقص میں لا اور میرا شیشہ دل توڑ کر اُس کے ریزے میرے راستے میں بکھیر دے تاکہ میرے پاؤں زخمی ہوں اور میری لذت درد میں اور بھی اضافہ ہو۔
ھر خوں کہ عبث گرم شود در دلم افگن
ھر برق کہ بے صرفہ جہد بر اثرم ریز

جو خون یونہی گرم ہو جائے قلب میں ڈال دے اور جو برق بے فائدہ لپک اٹھتی ہو اُسے مجھ پر گرا دے۔
ھر جا نم ِ آبے است بمژگانِ ترم بخش
از قلزم و جیحوں کف خاکے بسرم ریز

لغت: "قلزم"ایک خاص سمندر یعنی بحیرہ ء قلزم ہے لیکن یہاں عام بحر مراد ہے اسی طرح جیحوں خراسان کا مشہور دریا ہے اور یہاں عام دریا کے مفہوم میں آیا ہے۔
جہاں کہیں پانی کا کوئی قطرہ ہو وہ میری مژگان تر کی نذر کر دے اور قلزم اور جیحوں کو کف خاک بنا کر میرے سر پر ڈال دے۔
یعنی دنیا کے دریا اور سمندر کا سارا پانی مجھے آنسو بہانے کے لیے عنایت فرما اور جب سمندر اور دریا خشک ہو جائیں تو اُن کی مٹی سر پر ڈال دے ۔
از شیشہ گر آئیں نتواں بست شبم را
بارے گل پیمانہ بجیب سحرم ریز

لغت: آئیں بستن = آراستہ کرنا ۔۔۔۔شیشہ= صراحی مے۔
اگر میری رات صراحی مے سے آراستہ نہیں ہو سکتی تو کم از کم جام شراب کی ٹھیکری ہی میری صبح کی جیب میں ڈال دے۔ یعنی اگر رات کو عیش میسر نہیں تھا تو صبح کا آغاز ہی اچھا ہو۔
گیرم کہ بافشاندنِ الماس نیرزم
مشتے نمک سُودہ بہ زخم جگرم ریز

میں نے مانا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میرے زخموں پر الماس پاشی کی جائے مٹھی بھر پسا ہوا نمک ہی میرے زخمِ جگر پر ڈال دے۔
ایں سوز طبیعی نگدازد نفسم را
صد شعلہ بیفشار و بہ مغز شررم ریز

زندگی کی اس فطری حرارت سے تو میرے سانس کو گداز نصیب نہیں ہو سکتا۔ تو بھڑکتے ہوئے شعلے لے کر انہیں بھینچ اور اُن کا آتشیں شیرہ، میری ان چنگاریوں کے مغز میں ڈال دے۔
مسکین خبر از لذت آزاد ندارد
خارم کن و در رہگزر چارہ گرم ریز

میرے چارہ گر بے چارے کو کیا خبر کہ دکھ اُٹھانے میں کیا لذت ہوتی ہے۔مجھے کانٹا بنا دے اور اس چارہ گر کی رہ میں ڈال دے (تاکہ یہ کانٹا اس کے پاؤں میں چبھے اور اسے درد محسوس ہو)
وجہے کہ بہ پا مزد تواں داد،ندارم
آبم کن و اندر قدمِ نامہ برم ریز

لغت:وجہ= رقم
نامہ بر کو اُس کے پاؤں کی محنت کی مزدوری دینے کے لیے میرے پاس کوئی رقم نہیں۔ مجھے اس شرم سے پانی پانی کر دے تاکہ میں یہی پانی نامہ بر کے قدموں پر ڈال سکوں۔
دارم سرِ ہمطرحی غالب چہ جنون است
یا رب ز جنوں طرحِ غمے در نظرم ریز

غالب کی ہم طرحی کا ارادہ کر رہا ہوں۔یہ کیا جنون ہے؟اے خدا جوشِ جنوں سے میری نگاہوں میں غم کی طرح ڈال دے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اس مصرعے پر تجدیدِ نظر کرلیں۔معنیٰ واضح نہیں ہورہا۔
یہ 'هر جا نمِ آبی‌ست...' ہے۔
گیرم کہ بافشاندنِ الماس نیرزم
فشاندن کی جگہ افشاندن ہے غالباََ۔
قدیم طرزِ کتابت میں 'به' کو عموماً لفظِ مابعد کے ساتھ ملا کر لکھا کرتے تھے۔ یہ 'به افشاندنِ الماس' ہی ہے۔
 
Top