اقبال یارب یہ جہانِ گزراں خوب ہے لیکن ----------- علامہ محمد اقبال

مغزل

محفلین
رات ایک محفل میں عزم صاحب کے ایک دوست نے ’’ کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند‘‘ کو ’’کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر قند ‘‘ کردیا خاصی بحث رہی مگر وہ صاحب ماننے کو تیار نہ تھے بہر کیف انہیں ثبوت دیا تو معلوم ہو ا کہ کلام یہاں نہیں موجود سو حاضر ہے ۔


یارب یہ جہانِ گزراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردانِ صفا کیش و ہنر مند

گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہوہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند

تو برگ ِگیا ہے نہ وہی اہلِ خرد را
او کشتِ گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند

حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بخر موعظہ و پند

احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند

فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند

مدت سے ہے آوارۂ افلاک مری فکر
کردے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دِلی، نہ صفا ہاں، نہ سمر قند

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ آبلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ و ماوند

ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں خاموش
میں بندۂ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند

پُر سوز و نظر بازوں کی بیں و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند

ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند

چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند

علامہ محمد اقبال
 

مغزل

محفلین
صاحب وہ بھی عجیب ٹھسے کے آدمی ہیں رات انہیں کتاب میں بھی دکھا دیا مگر جناب ماننے کو تیار ہی نہیں آپ نے بجا فرمایا کہ قند سے چپک گئے ہیں۔
 
Top