یاد پھر کیا دلا دیا تم نے

ایم اے راجا

محفلین
یاد پھر کیا دلا دیا تم نے
آج ہم کو رلا دیا تم نے

میں تو بھولا نہیں ابھی تک بھی
قصہ وہ جو بھلا دیا تم نے

اے شبِ ہجر مہربانی ہو
غم زدہ کو سلا دیا تم نے

خون سے تھا لکھا کبھی تم کو
خط مرا وہ جلا دیا تم نے

اک سزا زندگی بنی راجا
پھر غموں سے ملا دیا تم نے
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔۔ غزل بحر میں تو ہے لیکن قافیے سب غلط ہیں۔ ’مِلا‘ اور "ہِلا‘ قافیے ہو سکتے ہیں۔ "بھُلا‘ اور ’رلا‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی اعراب جو ہوں اس اعتبار سے ہی قافیہ ہوتا ہے۔ مِلا۔ بھُلا: قافیے نہیں ہو سکتے۔
ان کو درست کرو تو دیکھی جائے یہ غزل۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔قافیہ غلط ہے، دوسرا کہو تو سوچا جائے۔ یا توسب پیش والے ہوں، یا زبر والے یا زیر دالے۔۔ زیادہ تر شاید بھُلا، سُلاِ وغیرہ ہیں۔
 

عین عین

لائبریرین
راجہ ، قافیے کی غلطی تو بہرحال بہت بڑی ہے، اسے درست کرنا ہی چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ چھوٹی بحر ہے اور آسان قافیے ہیں۔ اگر آپ ذرا سی توجہ دے لیں تو یہ معاملہ تو آرام سے نکل جائے گا۔ خیر یہ شعر میری سمجھ میں یوں ہو تو بہتر ہو گا۔
میں تو بھولا نہیں ابھی تک بھی
قصہ وہ جو بھلا دیا تم نے


میں تو اب تک اسے نہیں بھولا
وہ جو قصہ بھلا دیا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ “ابھی تک“ کے بعد دوبارہ “بھی “ کا استعمال بہت بھدا معلوم ہوتا ہے۔ باقی صاحبان فن بہتر راستہ دکھائیں گے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ عین عین صاحب، اصل میں یہ غزل یہاں کہیں اوجھل ہو گئی تھی اس لیئے رھ گئی آج آوارہ گردی کے دوران ہتھے چڑھ گئی تو اس کو سرِ فہرست لانے کے لیئے چند الفاظ ٹانک دیئے
بہرحال آپ ن خوب فرمایا اور میں نے اس اصلاح کو پسند کیا۔ شکریہ۔
 
Top