شکیل بدایونی یادایّامے

فہد اشرف

محفلین
آغاز محبت میں اکثر وہ دور بھی آیا کرتے تھے
میں ان میں سمایا کرتا تھا وہ مجھ میں سمایا کرتے تھے

جب جوروستم کے چہرے پر تھا لطف و عنایت کا غازہ
جب دل کو بھی کرنا مشکل تھا جذبات دروں کا اندازہ
جب پھول سے نازک دل پہ مرے تھا زخم نظر تازہ تازہ
اک بار تبسم فرما کر سو بار ہنسایا کرتے تھے

احساس کی شمعیں جلتی تھیں جب نازوادا کی محفل میں
رکھا تھا قدم مدہوشی نے جب ہوش و خرد کی منزل میں
جب فتح محبت پر اپنی مغرور تھے ہم دل ہی دل میں
وہ اور نظر کو شہ دے کر مغرور بنایا کرتے تھے

ہیں یاد ابھی تک دل کو مرے ان کی وہ عنایات پیہم
ہر لمحہ وہ احساسات وفا ہر لحظہ وہ صد انداز کرم
وہ عشق و تمنا کی دنیا وہ حسن محبت کا عالم
جھکتی تھی نظر سجدے کے لیے جب سامنے آیا کرتے تھے

درپیش ہو درد ہجر کبھی جب غم کا تقاضا ہوتا تھا
اس دور جدائی میں کس کو پھر صبر کا یارا ہوتا تھا
یوں گرمئ ربط باہم سے فرقت کا مداوا ہوتا تھا
ملنے کو خود آیا کرتے تھے یا مجھ کو بلایا کرتے تھے

انجم کی جھلک اختر کی ضیا راتوں کو منور کرتی تھی
پھولوں کی مہک غنچوں کی ادا ہستی کو معطر کرتی تھی
سازوں کی جھمک نغموں کی صدا عالم کو مسخر کرتی تھی
نغمات حسیں سے ہم دونوں فطرت کو جگایا کرتے تھے

بھولوں گا نہ بھولا ہوں اب تک رخصت کا غم آگیں افسانہ
منہ پھیر کے میری جانب سے آنکھوں میں وہ آنسوں بھر لانا
پھر خود ہی دبی آواز سے کچھ تسکین کے جملے فرمانا
سو حشر بھی ہوں جس پر قرباں وہ حشر اٹھایا کرتے تھے

بیتاب جدائی میں ان کی جب اپنی طبیعت ہوتی تھی
کچھ ان کے خطوط رنگیں سے تسکین محبت ہوتی تھی
آنکھوں کو دلاسے دے دیکر پوشیدہ وہ صورت ہوتی تھی
تصویر کو فرط شوق میں ہم سینے سے لگایا کرتے تھے

ہوتی تھیں ملاقاتیں ان سے جاڑوں میں ٹھٹھرتی راتوں میں
وہ بات کہاں فصل گل میں وہ بات کہاں برساتوں میں
اک بار نہیں ہر بار سحر ہوجاتی تھی باتوں باتوں میں
تصدیق محبت کا عالم دنجا کو دکھایا کرتے تھے

ہے یاد حضورِ داور کُل وہ شکر ادا کرنا باہم
نظروں سے ملا کر نظروں کو وہ عہدوفا کرنا باہم
تکمیل محبت کی خاطر اٹھ اٹھ کے دعا کرنا باہم
تاثیر بلائیں لیتی تھی جب ہاتھ اٹھایا کرتے تھے

ہاں اب یہ حقیقت ہی نہ رہی، ہاں اب یہ فسانہ ہی نہ رہا
ہر چند وہی ہیں ہم دونوں لیکن وہ زمانہ ہی نہ رہا
 
Top