ہے خبر گرم ان کے آنے کی

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
محمد زین العابدین کے پیدا ہونے پر اویس قرنی (چھوٹا غالب) کی ایک خوبصورت تحریر​
الف۔۔۔۔
انسان ہے تو خسارے میں ہے ۔۔۔
خوشی ہو یا غمی آپے سے باہر ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔۔۔
خوشی ملے تو کہنا کہ "میں نے کر دکھایا۔"
غم ملے تو "میری تو قسمت ہی خراب ہے ۔ " یا "قدرت کو تو مجھ سے خدا واسطے کا بیر ہے۔"
ویسے تو بہت عقلمند اور بحر علم کا شناور ہے ۔ سائنس تو اس کی انگلیوں پہ دھری ہے ۔
نیوٹن کا حرکت کا تیسرا قانون "ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے " تو بچے بچے کو بھی یاد ہے ۔ مگر آزمائش کے وقت نجانے کیوں یہ قانون اکثر بھول جاتا ہے ۔
شاید اعمال نامے پہ نظر ڈالتے دل دہلتا ہو۔۔۔!!

الف۔۔۔۔
اللہ ہے تو اپنی شان کے مطابق عظمتوں کا مالک ہے ۔
اپنی مخلوق سے اتنا پیار کرتا ہے کہ ستر ماؤں کا پیار یکجا ہوجائے تب بھی اس کے پیار کے برابر نہیں۔
مومن ہو یا گناہگار ۔۔۔۔ اس کے پیار میں کمی نہیں آتی ۔۔۔اس کی رحمت کے سامنے سب برابر ہیں۔
توبہ کا دروازہ کھول کے بیٹھاہے ۔ کہ کب بندے کو میری یاد آ جائے ۔۔۔۔
سب کے عیب دیکھ رہا ہے ۔۔۔ اور پردے ڈالے جاتا ہے ۔

سیانے کہتے ہیں دنیا میں پیدا ہونے والے پر بچے کی پیدائش دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔
چہ خوب ۔۔۔!! حضرت انسان نے حد کر دی ہے اپنی حد پار کرنے میں۔۔۔۔ اپنی اوقات بھول جانے میں۔۔۔۔ مگر اللہ کی رحمت کے قربان جائیے کہ انسان سے ناامید نہیں ۔۔۔ دنیا میں آج کیا کچھ نہیں ہو رہا ۔۔۔اس کے باوجود اللہ کی رحمت بدستور اس صبح کے بھولے کی شام سے پہلے واپسی کیلئے پُر امید ہے
۔
گویا غالب ؔ کے بقول :۔ "وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔"

میں ہر روز کی طرح سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا خوف دل میں لیے صبح جاگا تو پیغام ملا کہ اللہ کی طرف سے صلح صفائی کا ایک اور موقع ملا ہے ۔ اللہ کی انسان سے خوش امیدی کی ایک اور علامت دنیا میں وارد ہوئی ہے ۔۔۔مجھ سے سیاہ کار کیلئے یہ خبر کتنی خوشی کا باعث ہوئی اس کا اندازہ کرنے کیلئے ذرا حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔ جب انہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی کنعان آمد کی خوشخبری سنائی گئی تھی ۔
میری خوشی کا اندازہ صرف وہ پھانسی کا مجرم ہی لگا سکتا ہے کہ جسے عین پھانسی سے کچھ دیر پہلے معافی نامے کی خوشخبری مل جائے ۔۔۔

میں نے سنا ہے جب ابو لہب کو ثوبیہ نے آمد سرکارﷺ کی خبر سنائی تھی تو اس نے خوشی کے مارے خبرلانے والی لونڈی کو آزاد کردیا ۔ اور اس کے اعمال نامے کی تمام تر سیاہ کاریوں کے باوجود وہ آج بھی اس ایک عمل کی جزا پا رہا ہے ۔۔۔ میرے دل میں خیال آیا کہ نام نہاد جوگی میاں ابو لہب اور آپ کے اعمال نامے میں کم از کم انیس بیس کا ہی فرق ہوگا ۔ پس اگر امید کی ایک کرن ۔۔۔ تسکین کا ایک لمحہ ۔۔۔ عذاب سے ایک لمحے کا چھٹکارہ ۔۔۔اسے مل سکتا ہے تو یقیناً تمہیں بھی مل سکتا ہے ۔ غلام ، لونڈیوں کا تو زمانہ لد گیا تو کیا ہوااپنے انداز میں خوشی کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ کو اپنے محبوب ﷺ سے اتنا پیار ہے تو یقیناً محبوب ﷺ کی امت سے بھی پیار ہوگا۔ پس اگر ایک پیارےنبی ﷺ کے ایک پیارے امتی کی آمد پر خوشی کے اظہار کا موقع ہے تو ہاتھ سے جانے نہ پائے ۔ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت بڑا سہارا لگتا ہے ۔۔۔میری اس بات کی حقیقت صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو سیاہ کاری اور کمینگی میں میرے ہم پلہ ہوں۔ اگر خوش قسمتی سے آپ میری بات نہیں سمجھ پا رہے تو اللہ کا شکر ادا کیجئے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ اور ان کی امت پر بے شمار نعمتوں کی بارش کی ہے ۔ ان بے شمار نعمتوں میں سے اس نے صرف "کوثر" عطا کیے جانے کا ذکر فرما کر خوشخبری دی "بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا۔" اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نام و نشان ہونا کس قدر بڑی نعمت ہے ۔ کفار اور منافقین نے مذاق بنا لیا تھا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اولادِ نرینہ عطا نہیں فرمائی ۔ اس کی تردید میں اللہ نے خاص طور پر سورۃ نازل فرما کر آپ ﷺ کے دشمنوں کے بے نام و نشان ہونے کی خبر دی ۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ نعمتوں کا ذکر تو اللہ نے تقریباً سارے قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔ سورۃ الرحمن کا تو موضوع ہی یہی ہے کہ "پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔" لیکن اندازِ بیاں پر غور فرمائیے ۔ اور سورۃ کوثر کی آیات کی تعداد سے اندازہ لگائیے کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص الخاص نعمت کا ذکر کر کے ظاہر کیا ہے کہ نام و نشان ہونا دراصل اس دنیا کی سب سے بڑی اور ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے ۔ پس مبارک باد کا مستحق ہے ہر وہ اللہ کا بندہ جسے اللہ نے یہ نعمت عطا فرمائی ہے ۔

ڈارون سے ہر چند کہ میں متفق نہیں مگر نظریہ ارتقا کا جزوی طور پر قائل ضرور ہوں۔حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے وقت ان کی اولاد کی تعداد کیا تھی ۔ ان میں سے کتنے ہی قدرتی آفات کی زد میں آ کر مر گئے ہوں گے ۔ کچھ آپسی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں گے۔ ان میں سے زندہ وہی رہے جو قدرت کی نظر میں بہترین تھے ۔ ان کی اولادیں ہوئیں، اور قدرت کا چھانٹی والا فارمولا ہر زمانے میں لاگو ہوتا رہا۔ دنیا میں کتنی ہی جنگیں ہوئیں ۔ کتنے ہی زلزلے آئے ، کتنے ہی انسان سیلابوں ، طوفانوں کی نظر ہوگئے ۔ مگر دنیا انسان سے خالی نہیں ہوئی ۔ ہر لیول سے سروائیو کر کےآگے آنے والےیقیناً بہترین تھے اور قدرت کی نظر میں خاص تھے ۔ اب حال پر نظر دوڑائیں تو ثابت ہوگا کہ حضرت آدم کی اولاد کی چھانٹی میں سے قضا و قدرت نے موجوہ انسانوں کو ہی چنا ۔کیا یہ بات حکمت سے خالی ہو سکتی ہے کہ اتنے زمانوں میں آنے والی بے شمار آفات اور جنگوں کا شکار ذوالقرنین سرور کے آباو اجداد نہ تھے ۔ اور اب جبکہ بقول غالبؔ:۔
سلطنت دست بدست آئی ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتے ہوتے یہ سلطنت اب محمد زین العابدین تک آن پہنچی ہے ۔تو ماننا ہی پڑے گا کہ قدرت نے انہیں بے مقصد نہیں چُنا۔ یہ یقیناً بہت ہی خاص الخاص ہیں۔
بڑے غالب ؔ نے اپنے سات بچے دے کر قدرت سے زین العابدین خان عارفؔ کو پایا تھا ۔ اور چھوٹے غالب ؔ پر بھی اللہ کا کرم ہو گیاہے ۔

خوش آمدید محمد زین العابدین۔۔۔۔

ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
 
بھئی واہ۔ ہمیشہ کی طرح کمال لکھا ہے۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ محفل کا بہترین لکھاری کون گزرا ہے تو میں اویس کا نام لیتا ہوں۔ اس کے کچھ تو "گوش شنید" گواہ بھی ہوں گے! بہر حال، بہت خوب بہت عمدہ۔
ہمارا پیغام ان تک ضرور پہنچائیے گا کہ میاں، ہمیں اب بھی اس بات کی خوشی ہے کہ انکی تحریر میں وہی ٹیڑھ پن، کجی اور ڈنک پایا جاتا ہے!
خود حکایت نقل حال ماست آن!!
:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھئی واہ۔ ہمیشہ کی طرح کمال لکھا ہے۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ محفل کا بہترین لکھاری کون گزرا ہے تو میں اویس کا نام لیتا ہوں۔ اس کے کچھ تو "گوش شنید" گواہ بھی ہوں گے! بہر حال، بہت خوب بہت عمدہ۔
ہمارا پیغام ان تک ضرور پہنچائیے گا کہ میاں، ہمیں اب بھی اس بات کی خوشی ہے کہ انکی تحریر میں وہی ٹیڑھ پن، کجی اور ڈنک پایا جاتا ہے!
خود حکایت نقل حال ماست آن!!
:)
ضرور جناب۔۔۔۔۔ :) :)
 

تلمیذ

لائبریرین
تحدیث نعمتِ باری تعالے پر مشتمل خلوص و محبت سے شرابور ایک اثر آفرین تحریر۔
تخلیق کے لئے اویس صاحب اور شراکت کے لئے نین جی کا شکریہ۔
 
Top