ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو (عمران شناور)

اولڈ از گولڈ

ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو
تو سامنے رہے تری پہچان بھی نہ ہو

مانا کہ عمر بھر تو مرا ہو نہیں سکا
ایسا بھی کیا کہ تو مرا مہمان بھی نہ ہو

آغاز اس سفر کا کریں آؤ مل کے ہم
جس میں کہیں بچھڑنے کا امکان بھی نہ ہو

ہو جائے جو بھی ہونا ہے ایسا نہ ہو کبھی
اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان بھی نہ ہو

یاں ہر قدم پہ خوف ہے یاں ہر قدم پہ غم
دل کے نگر کا راستہ سنسان بھی نہ ہو

ہر بار پوچھتا ہے کہ آخر ہے بات کیا
ہمدم کسی کا اتنا تو انجان بھی نہ ہو

یہ قفلِ دل کلیدِ محبت سے کھول دو
ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں عمران بھی نہ ہو

(عمران شناور)​
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے آپ کی عمران صاحب، لاجواب۔

بہت اچھا مطلع ہے، واہ

ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو
تو سامنے رہے تری پہچان بھی نہ ہو
 

محمداحمد

لائبریرین
ہو درد اور درد کا درمان بھی نہ ہو
تو سامنے رہے تری پہچان بھی نہ ہو

ہو جائے جو بھی ہونا ہے ایسا نہ ہو کبھی
اس دل میں تیرے ملنے کا ارمان بھی نہ ہو


بہت خوب عمران شناور صاحب،

بہت اچھی غزل ہے۔ نذرانہء تحسین پیشِ خدمت ہے۔

اللہ رب العزت آپ کو بہتر سے بہتر لکھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 
Top