ہم

نوید ناظم

محفلین
کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم میں صرف خوبیاں ہیں اور خامی نہیں ہے، تو پھر اس سے بڑی خامی اور نہیں ہو سکتی. ہم میں خامیاں ہیں اور آنکھ سے اوجھل ہیں' اوجھل اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں نے یا کم از کم دوستوں نے برداشت کی ہوئی ہیں، مگر دوسروں کی خامیاں ہم پر اس لیے عیاں ہیں کہ وہ ہمیں برداشت نہیں ہیں. کسی کی خامی دور کرنا ہو تو پہلے اسے خامی سمیت قریب کرنا ضروری ہے- ہم علم کا ہتھوڑا ہاتھ میں لیے گھوم رہے ہیں' ادھر موقع ملا اُدھر برسانا شروع کر دیا... تبلیغ کے نام پر دل زخمی کرتے ہیں اور پھر گلہ کرتے ہیں کہ اس کے دل میں کوئی بات نہیں اترتی' کہتے ہیں اس کے دل پر قفل پڑ گیا ہے...اصل میں اُس کے دل پر زنگ نہیں ہے، بلکہ ہمیں خود بات پہنچانے کا ڈھنگ نہیں ہے. ہمیں یہ گلہ تو ہے کہ فلاں ہماری بات نہیں سنتا' ہمیں یہ احساس نہیں ہے کہ ہماری بات ہی میں تاثیر نہیں۔۔۔۔ استاد کہتا ہے جو فیل ہوا ہے وہ شاگرد ہی نالائق ہے' حالانکہ لائق استاد کہتے ہی اُسے ہیں جو شاگرد کو نالائق نہ رہنے دے. دراصل ہمیں بات کرنے کا سلیقہ کم ہے اور بات کو منوانے کا جنون زیادہ. ہم بھول جاتے ہیں کہ لوگ علم کی زبان نہیں سمجھتے بلکہ محبت کی زبان سمجھتے ہیں. ہم جنھیں کتاب کی بات سنا رہے ہیں' وہ دل کی بات سننا چاہتے ہیں. آخر اس میں کیا دقت ہے کہ اگر کوئی خوش نظر آئے تو بندہ اس کی خوشی میں شریک ہو جائے ' اور اگر کوئی غم میں مل جائے تو اس کا غم بانٹ لیا جائے. بندہ اچھی باتوں سے لطف لے اور کمزور باتوں کو برداشت کر لے۔۔۔۔ نہ کہ کسی کی خوبی پر حسد یا کسی کی خامی پر نفرت کا وبال پال کر اپنی ہی زندگی کو مشکل بنا لیا جائے-
 
Top