ہم کہ ٹھہرے اجنبی ۔۔۔ فیض شناسی ۔۔۔ از ۔۔۔ غزالہ رشید

قوت اپنی، عمل اپنا، نہ جینا اپنا
کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا
ناخدا دَور، ہوا تیز، قریں کام نہنگ
وقت ہے پھینک دے، لہروں میں سفینہ اپنا

’’فیض احمد فیضؔ بے حد نرم خو، مدھم اور ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے مگر اس کے باوجود، ان کی شخصیت اور دانش وری کا رعب قائم رہتا تھا اور ان سے بات کرتے ہوئے کچھ خوف سا آتا تھا۔‘‘
یہ جملہ ان کے بارے میں یقیناً کسی جاننے والے اور قریبی شخص نے ہی تحریر کیا ہے لیکن آج بھی ان کے بارے میں لفظوں کو جوڑنے، بیٹھنے کا عمل مجھے بھی ایسے ہی خوف میں مبتلا کررہا ہے۔ غور کریں تو قاری، سامع اور ناظر کا رشتہ اپنے پسندیدہ ترین مصنف اور شاعر سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے بھی فیض احمد فیضؔ کو ان کی شاعری سے ہی دوستی کے بعد پایا اور اب بھی یہ رشتہ احترام اور خلوص کا ہے کہ ایسے روحانی استاد آپ کے اور میرے ہر شخص کے فیض احمد فیضؔ ہیں، فیض سے جب تعلق جڑا تو اس شعر کے ساتھ کہ۔ ۔ ۔
فیصؔ زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
یا پھر فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر کہ۔ ۔ ۔
فیض کیا چار دن کی رنجش سے
اتنی مدت کا پیار ٹوٹ گیا

اور پھر کبھی دوستوں کی محبتوں سے شاعری کے تحائف ملے تو فیض احمد فیضؔ سے ایسی دوستی ہوئی کہ 13 فروری 1911ء میں پیدا ہونے والے فیض احمد ہمارے لیے ایسے ہو گئے جیسے کہ قریبی دوست۔ ۔ ۔ جن سے جب چاہا کتاب کھولی اور بغیر کسی تکلف اور سلام دعا کے ملاقات کرلی اور یہ بھی جاننے کی کوشش نہ کی کہ ان کا تعلیمی سفر کیسا تھا۔ زندگی کیسی تھی اور شب و روز کہاں گزارتے تھے کیونکہ دوست کے بارے میں بھلا اتنی معلومات اور تفتیش کرنے کی ضرورت ہی کہاں پڑتی ہے۔ ہاں بس اس کی بات سے اپنی بات کی اہمیت بڑھتی ہے اور اس کے شعر دل کی ضرورت اور محبت بن جاتے ہیں جیسا کہ یہ شعر کہ۔ ۔ ۔
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں

یہ شعر آپ کو بھی فیض احمد فیضؔ کے عشق میں مبتلا کردے گا اور یہ وہ عشق نہیں جس پر آپ اور میں شرمندہ ہوں لیکن پھر اپنے دورِ طالب علمی میں ہی، جب بہت سے اور لوگوں کو بھی فیض احمد فیضؔ کو اپنا فیض کہتے سنا تو رقابت نے معلومات کا سفر طے کرنا شروع کیا اور جاننا مجبوری بن گیا کہ لوگ کہتے کہ فیض انقلابی شاعر ہیں اور یہ غلط بھی نہیں تھا کہ ایک شاعر جو کہ سب کے دلوں کی آواز بن جانے کے ہنر سے واقف ہے۔ وہ عملی زندگی میں ایسی راہیں نہ اختیار کرے، جس میں آزادی کی لگن، عوام کے جذبات و احساسات، سیاسی فکر اور تاریخ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی اقوام کے دکھ اور درد سے باخبر رہنے کی صلاحیت نہ ہو اور پھر وہ ہمیں آزادی کے معنہ نہ سمجھا سکے، کیونکہ انسان، محبت کے ساتھ ساتھ سانس لینے کی آزادی بھی تو چاہتا ہے۔ زنداں میں فکر و نظر کے پہرے سمجھنے کا فن بھی تو انسان سیکھتا ہے۔ یوں سفر در سفر کا آغاز ہوا تو جانا کہ فیض احمد فیضؔ کی زندگی بھی ہماری ہی طرح شروع ہوئی تھی کہ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں والد، خان بہادر سلطان محمد خان، ایک بیرسٹر بھی تھے اور سفیر کے عہدے پر بھی رہے۔ یوں انہوں نے ابتدائی تعلیم مذہبی مولوی محمد ابراہیم سے لی اور درسی تعلیم کے حصول میں ممتاز اساتذہ جن میں شمس العلماء سید میر حسن، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، احمد شاہ (پطرس بخاری)، صوفی غلام مصطفی تبسم جیسے لوگ شامل تھے۔ یوں انہوں نے انگریزی ادب اور عربی ادب میں بھی ایم اے کیا۔
ادبی استاد جاننے کا شوق بھی ہوا تو معلوم ہوا کہ کسی بھی انسان کی تعلیم و تدریس میں مخلص اساتذہ اور ماحول کا ذکر بھی کتنا معنی رکھتا ہے۔ تب ہی تو جانا کہ ان کے ادبی اساتذہ میں ڈاکٹر تاثیر، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرتؔ جیسی ہستیاں شامل تھے اور پھر یہ سفر آج تک میرے ساتھ ساتھ ہے کہ آج کچھ لفظ پھر سے جوڑ لیے۔ تصویر ان کی بنانے کے لیے۔
فیض احمد فیضؔ وطن سے محبت کرنے والے وہ شاعر تھے جو کہ وطن کی راہ میں قربانیاں دینے والے گمنام لوگوں کے دکھ درد کو بھی محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ صحافی بھی تھے اور سچ بات کہنے کے جرم میں جیل کی مشکلات کو بھی سہنا پڑا۔ عالمی سطح پر بھی جب علمی سفر حاصل کیا تو احساس ہوا کہ ہر وہ شخص جو درد مند دل بھی رکھتا ہے، اپنی بات کہنے کا فن اگر آتا ہے تو کہنا بھی چاہتا ہے لہٰذا فیض احمد فیضؔ کی شاعری میں سوچ کا عکس اس دور کے طالب علموں اور ان جیسے نظریات رکھنے والوں، سمجھنے والوں کی باتوں میں بھی جھلکتا ہے۔ ایسی مایوسی اور اداسی فیضؔ نے بھی سہی اور کہا۔ ۔ ۔
بیزار فضا درپے آزارِ صَبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے
اُمڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر دانگ ملامت کی گھٹا ہے

اس عرصے میں فیض احمد کو چین بھی جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے چین کے شہروں پر بھی بہت سی نظمیں لکھیں لیکن ان دنوں ان کی کیفیت میں وہ پہلے والی بات نہیں تھی۔ کبھی کبھی جب ملک میں، شہر میں حالات اداسی کے ہوں اور پھر ان ہی دنوں انسان ذاتی صدمے بھی اٹھائے تو شاعری میں بھی وہ کیفیت نمایاں نظر آتی ہے۔ اپنی ایک قریبی مخلص دوست کی جدائی پر لکھے ہوئے شعر ہمیں فیض احمد فیضؔ کی محبتوں کو بھی روز ذاتی وارداتوں کو بھی سمجھنے کا موقع دیتے ہیں، جیسے کہ وہ کہتے ہیں اور آپ جب سنیں گے یا پڑھیں گے تو کیفیت قلبی آپ کو بھی لمحے بھر کو فیض کے قریب کردے گی۔
دور جاکر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وِصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے

فیض احمد فیضؔ کی بچپن کی خوب صورت یاد آپ سے شیئر کرنے کو دل چاہا تو یہ بھی سیکھا اور جانا کہ محبت اچھی اور اچھا وقت کس طرح زندگی بھر ساتھ دیتا ہے۔ فیضؔ نے لکھا۔ ۔ ۔
’’صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے۔ ابا کے ساتھ مسجد گئے۔ نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میرسیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے۔ درس قرآن سننا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے۔ پھر اسکول رات کو ابا بلا لیا کرتے۔ خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سیکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بھی بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو، انگریزی اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔‘‘
آج جب فیض احمد فیضؔ کے بارے میں کئی بار کی پڑھی ہوئی بات ایک بار پھر پڑھی تو تربیت کے انداز سے بھی واقفیت ہوئی۔ ایسی خاموش بات، ایسی پیاری تربیت ایک خاتون ہونے کے ناتے کس خاموشی سے میرے اندر اتر گئی پھر بھلا کیسے کوئی کہے کہ۔ ۔ ۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

بشکریہ عالمی اخبار
نوٹ:میں نے اسے بزم اردو سے لیا ہے
 
Top