ہم کو حصارِ حلقہء احباب چھوڑکر

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہم کو حصارِ حلقہء احباب چھوڑکر
صحرا ملا ہے گلشن ِ شاداب چھوڑ کر

ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر

سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال
دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر

اوج ِ فلک سے گرگیا تحت الثریٰ میں عشق
طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر

مسجد کی پاسبانی پر اب آگئی ہے بات
اٹھنا پڑے گا منبر و محراب چھوڑ کر

ہرچشم زیرِ خواب ہے یا زیرِ بارِ اشک
دیکھوں کسے میں دیدہء مہتاب چھوڑ کر

نکلے رہوگے دوزخ ِلیل و نہار میں
کب تک ظہیر جنتِ بیتاب چھوڑ کر

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳
فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر

 

محمداحمد

لائبریرین
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر

سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال
دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر

مسجد کی پاسبانی پر اب آگئی ہے بات
اٹھنا پڑے گا منبر و محراب چھوڑ کر

بہت ہی خوب۔۔۔!

بہت سی داد۔۔!
 
Top