ہم کو اس پار کے منظر بھی دکھائے کوئی

ثامر شعور

محفلین
کاش دیوار یہ لمحوں کی گرائے کوئی
ہم کو اس پار کے منظر بھی دکھائے کوئی

جان آنکھوں میں اتر آئی ہے راہیں تکتے
ہم بھی آزاد کریں اس کو جو آئے کوئی

دل کے ٹھہرے ہوئے دریاوٗں سے خوف آتا ہے
کس طرف جائیں انہیں راہ دکھائے کوئی

یار روٹھے تو منانا نہیں مشکل لیکن
کیسے روٹھا ہوا من اپنا منائے کوئی

روح کے پھیلے ہوئے زخم تو چھپ سکتے ہیں
کیسے چہرے سے عیاں درد چھپائے کوئی

چارہ گر کیسا جسے دیکھ کے خواہش ابھرے
اپنے ہاتھوں سے ہمیں زخم لگائے کوئی

دور کتنا بھی رہے کوئی وہ مل سکتا ہے
کیسے اندر کے چھپے شخص کو پائے کوئی

یاد کرنا اسے پڑتا تو بھلا بھی دیتے
وہ تو دھڑکن ہے اسے کیسے بھلائے کوئی

انتہا حسن کی ثامؔر کبھی ہم بھی دیکھیں
آخری پردہ جو حائل ہے اٹھائے کوئی​
 
Top