یوسفی ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔۔۔

مشتاق احمد یوسفی ۔۔۔
ایک ایسا نام جس کے بارے میں کہا گیا "الفاظ خود کو یوسفی سے کہلوا کر فخر محسوس کرتے ہیں"
اور ابن انشاء جیسے عظیم ادیب کا قول تو ان کے لئے ایک اعزاز ہے۔۔
"ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں"

ان کی باتوں اور اقتباسات کا کچھ ذکر ہو جائے۔

ایک جگہ فرمایا ۔۔۔
"انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی اور گانا اپنی زبان میں ہی کہتا ہے"

اگر آپ ان کا کوئی اقتباس یا کوئی بات شئر کر دیں تو نوازش ہو گی۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اردو محفل کی لائبریری میں یوسفی صاحب کے بہت سے اقتباسات موجود ہیں۔ آپ اسی موضوع کی ٹیگز میں "یوسفی" یا "مشتاق احمد یوسفی" کے ٹیگز پر کلک کریں گےتو بہت سے دفینے آپ پر ظاہر ہو جائیں گے۔ :)
 
سخنور صاحب نے ایک جگہ یوسفی صاحب کی ایک بات نقل کی ہے ۔۔

"صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم صاحب کے ایک شاگرد ایک بار نظر کی عینک لگا کر آ گئے تو صوفی صاحب نے کہا کہ تم عینک لگا کر بالکل الّو لگتے ہو تو صوفی صاحب کا وہ شاگرد کہنے لگا۔ استادِ محترم اگر میں یہ عینک نہ لگاؤں تو مجھے آپ الّو لگتے ہیں"

اس کے لئے شکریہ ۔۔
 
کافی ۔۔۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی


عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں ۔ یہ اس لئے کہ رہا ہوں کہ دونوں کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی ۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوس نسخہ ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے ، مشرقی افریقہ کےاس انگریزافسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی مزے دار کافی کی سارے ضلع میں دھوم تھی ۔ ایک دن اس نے نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش زائقہ کافی بنائی ۔ انگریز نے بہ نظرِ حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب پوچھی ۔
حبشی نے جواب دیا ۔
بہت ہی سہل طریقہ ہے ۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں ۔ پھر اس میں کافی ملا کر دم کرتا ہوں ۔ "
" لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو ۔ بہت مہین چھنی ہوئی ہوتی ہے "
" حضور کے موزے میں چھانتا ہوں "
" کیا مطلب ؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو ؟"
آقا نے غضب ناک ہو کر پوچھا ۔
خانساماں سہم گیا
"*نہیں سرکار ! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا
 

فرخ منظور

لائبریرین
خٹک صاحب۔ یوسفی کا کوئی اقتباس دینا کافی مشکل کام ہے کیونکہ اقتباس کا ربط بقیہ مضمون سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ مضمون پڑھیے۔ مضمون کی تدوین میں نے کی ہے لیکن اصل مضمون بشکریہ قیصرانی آپ یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔

موذی
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے۔ لیکن اس کی تاویل عجیب وغریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کوغلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ ونادرہی مردوں کے حصے میں آتاہے۔ اب سگرٹ ہی کولیجئے۔ ہمیں کسی کے سگرٹ نہ پینے پرکوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزاسگرٹ چھوڑنے کاجو فلسفیانہ جواز ہربارپیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔
مہینوں وہ یہ ذہین نشین کراتے رہے کہ سگرٹ پینے سے گھریلو مسائل پرسوچ بچارکرنے میں مدد ملتی ہے اورجب ہم نے اپنے حالات اوران کی حجت سے قائل ہوکرسگرٹ شروع کردی اوراس کے عادی ہوگئے توانھوں نے چھوڑدی۔ کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پرمیں سگرٹ پی پی کرغورکیا کرتا تھا، وہ دراصل پیدا ہی کثرت سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔
ہمیں غوروفکرکی لت لگانے کے بعد انھوں نے آناجانا موقوف کردیا جواس بات کی علامت تھی کہ وہ واقعی تائب ہوگئے ہیں اورکسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے بالخصوص سگرٹ پینے والوں سے ۔(انہی کاقول ہے کہ بڑھیاسگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے -خواہ وہ رشتے دارہی کیوں نہ ہو) میں گیا بھی توکھنچے کھنچے رہے اورچند دن بعد ایک مشترک دوست کے ذریعہ کہلوایا کہ”اگرمیںنے بربنائے مجبوری سگرٹ نہ پینے کی قسم کھالی تھی تو آپ سے اتنا بھی نہ ہوا کہ زبردستی پلا دیتے ۔ “میں ہوں مجبورمگر آپ تومجبورنہیں“
سات مہنیے تک سگرٹ اورسوسائٹی سے اجتناب کیا۔ لیکن خدا بڑا مسبب الاسباب ہے ۔ آخرایک دن جب وہ وعظ سن کرخوش خوش گھرلوٹ رہے تھے توانھیں بس میں ایک سگرٹ لائٹرپڑا مل گیا۔ چنانچہ پہلے ہی بس اسٹاپ پراترپڑے اورلپک کرگولڈ فلیک سگرٹ کاڈبہ خریدا(ہمیں واقعہ پرقطعاً تعجب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ گزشتہ کرسمس پرانھیں کہیں سے نائلون کے موزے چار آنے رعایت سے مل گئے تھے،جن کو”میچ “ کرنے کے لیے انھیں ایک دوست سے قرض لے کرپوراسوٹ سلواناپڑا) سگرٹ اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں میں دبا کرلائٹرجلانا چاہا تومعلوم ہوا کہ اندر کے تمام پرزے غائب ہیں۔ اب ماچس خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔
ہم نے اکثریہی دیکھا کہ مرزا پیمبری لینے کو گئے اور آگ لے کرلوٹے!
اوردوسرے دن اچانک غریب خانے پرگاڑھے گاڑھے دھوئیں کے بادل چھا گئے، جن میں سے مرزا کا مسکراتا ہواچہرہ رفتہ رفتہ طلوع ہوا۔ گلے شکوے تمام ہوئے تونتھنوں سے دھوا ں خارج کرتے ہوئے بشارت دی کہ سگرٹ میرے لیے موجب نشاط نہیں، ذریعہ نجات ہے۔
اتناکہہ کرانھوں نے چٹکی بجا کراپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اورقدرے تفصیل سے بتانے لگے کہ سگرٹ نہ پینے سے حافظے کا یہ حال ہوگیا کہ ایک رات پولیس نے بغیربتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑلیا تو اپنا صحیح نام اور ولدیت تک نہ بتا سکے، اور بفضلہ اب یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلفون ڈائرکٹری حفظ ہوگئی۔
مجھے لاجواب ہوتا دیکھ کرانھوں نے فاتحانہ انداز سے دوسری سگرٹ سلگائی۔ ماچس احتیاط سے بجھاکرہونٹوں میں دبالی اورسگرٹ ایش ٹرے میں پھینک دی۔
کبھی وہ اس خوشی میں سگرٹ پیتے ملیں گے آج رمی میں جیت کراٹھے ہیں۔اورکبھی (بلکہ اکثروبیشتر) اس تقریب میں آج تو بالکل ککھ ہوگئے۔ ان کادوسرادعویٰ تسلیم کر لیا جائے کہ سگرٹ سے غم غلط ہوتا ہے تو ان کے غموں کی مجموعی تعداد بہ شرح پچاس غم یومیہ، اٹھارہ ہزارسالانہ کے لگ بھگ ہوگی اوربعض غم تو اتنے ضدی ہوتے جارہے ہیں کہ جب تک تین چارسگرٹوں کی دھونی نہ دی جائے تو ٹلنے کا نام نہیں لیتے۔ انھیں عبرت دلانے کے ارادے سے میں نے بادشاہ مطر ید لطیس ششم کا قصہ سنایا۔ جویوں ہے کہ جب اس کو ہمہ وقت یہ اندیشہ لاحق رہنے لگا کہ موقع پاکرکوئی بدخواہ اسے زہر کھلادے گا تواس نے خود ہی روزانہ تھوڑا تھوڑا زہر کھانا شروع کر دیا تا کہ خون اورقویٰ عادی ہوجائیں اوروہ اس حفظ ماتقدم میں اس حد تک کامیاب ہوا کہ جب حالات سے مجبور ہو کراس نے واقعی خودکشی کرنے کی کوشش کی توزہر بالکل بے اثرثابت ہوااوراس نے بمشکل تمام اپنے ایک غلام کو خنجر گھونپنے پر رضامند کیا۔
بولے”ناحق بچارے غلام کو گنہ گارکیا۔ اگر خودکشی ہی کرنا تھی تو زہر کھانا بند کر دیتا۔ چند ہی گھنٹوں میں تڑپ تڑپ کرمرجاتا۔“
لیکن جو احباب ان کی طبیعت کے اتارچڑھاو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہ غم ابدی اورآفاقی ہوتے ہیں جن کا سگرٹ تودرکنار حقے سے بھی علاج نہیں ہوسکتا۔ میں نے اکثرانھیں اس غم میں سگرٹ کے کش پرکش لگاتے دیکھا ہے کہ سوئی گیس کا ذخیرہ سوسال میں ختم ہوگیا توان کی اپنی ملازمت کا کیا ہوگا؟ یاایک لاکھ سال بعد انسان کے سر پربال نہ ہوں گے توحجاموں اورسکھوں کا کیا حشر ہوگا؟ اورجب سورج پچاس ارب سال بعد بالکل ٹھنڈا پڑجائے گا تو ہم گھپ اندھیرے میں صبح کااخبارکیسے پڑھیں گے؟
ایک دفعہ توسب کویقین ہو گیا کہ مرزا نے واقعی سگرٹ چھوڑدی۔ اس لیے کہ مفت کی بھی نہیں پیتے تھے اورایک ایک سے کہتے پھرتے تھے کہ اب بھولے سے بھی سگرٹ کا خیال نہیں آتا۔ بلکہ روزانہ خواب میں بھی سگرٹ بجھی ہوئی ہی نظر آتی ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ اب کی دفعہ کیوں چھوڑی؟
ہوا میں پھونک سے فرضی دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے بولے ”یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ جوروپیہ سگرٹ میں پھونک رہا ہوں، اس سے اپنی زندگی کا بیمہ کرایا جاسکتا ہے۔ کسی بیوہ کی مدد ہوسکتی ہے۔“
”مرزا! بیمے میں چنداں مضائقہ نہیں۔ لیکن جب تک نام پتہ معلوم نہ ہو،یہ بیوہ والی بات میری سمجھ نہیں آئے گی۔“
”پھریوں سمجھ لوکہ بیمے سے اپنی ہی بیوہ کی امداد ہوسکتی ہے۔ لیکن مذاق برطرف، سگرٹ چھوڑنے میں ہے بڑی بچت! جوصرف اس طرح ممکن ہے کہ جب بھی پینے کی خواہش ہو، یہ فرض کرلوکہ پی لی۔اس طرح ہربارتمھاراڈیڑھ آنہ بچ جائے گا۔“
میں نے دیکھا کہ اس فارمولے پر مرزا نے بارہا ایک دن میں دس دس پندرہ پندرہ روپے بچائے۔ ایک روزدس روپے کی بچت دکھا کے انھوں نے مجھ سے پانچ روپے ادھارمانگے تومیں نے کہا”غضب ہے!دن میں دس روپے بچانے کے باوجود مجھ سے پانچ روپے قرض مانگ رہے ہو؟“
کہنے لگے”اگریہ نہ بچاتا تواس وقت تمھیں پندرہ دینے پڑتے۔“
مجھے اس صورت حال مین سراسراپنا ہی فائدہ نظر آیا۔ لہٰذاجب بھی پانچ روپے قرض دئیے ،یہ سمجھ کردیئے کہ الٹا مجھے دس روپے کا نقد منافع ہورہاہے۔ مرزاکے متواترتعاون کی بدولت میں نے اس طرح دوسال کی قلیل مدت میں ان سے چھ سوروپے کما لیے۔
پھرایک سہانی صبح کو دیکھا کہ مرزا دائیں بائیں دھوئیں کی کلیاں کرتے چلے آرہے ہیں ۔ میں نے کہا” ہائیں مرزا! یہ کیا بد پرہیزی ہے؟“ جواب دیا ”جن دنوں سگرٹ پیتا تھا کسی اللہ کے بندے نے الٹ کرنہ پوچھا کہ میاں کیوں پیتے ہو؟ لیکن جس دن سے چھوڑی، جسے دیکھو یہی پوچھتا ہے کہ خیرتوہے کیوں چھوڑدی؟ بالآخر زچ ہو کر میں نے پھر شروع کر دی! بھلا یہ بھی کوئی منطق ہے کہ قتل عمد کے محرکات سمجھنے کے لیے آپ مجرموں سے ذرانہیں پوچھتے کہ تم لوگ قتل کیوں کرتے ہو؟ اورہرراہ گیرکو روک روک کرپوچھتے ہیں کہ سچ بتاو تم قتل کیوں نہیں کرتے؟“
میں نے سمجھایا”مرزا! اب پیمانے بد ل گئے۔ مثال کے طور پر ڈاڑھی کوہی لو۔“
الجھ پڑے ”ڈاڑھی کا قتل سے کیا تعلق؟“
”بندہ خدا! پوری بات تو سنی ہوتی۔ میں کہہ رہا تھا کہ اگلے زمانے میں کوئی شخص ڈاڑھی نہیں رکھتا تھا تو لوگ پوچھتے تھے کیوں نہیں رکھتے؟ لیکن اب کوئی ڈاڑھی رکھتا ہے توسب پوچھتے ہیں کیوں رکھتے ہو؟“
ان کادعویٰ کہ نکوٹین ان کے خون میں اس حد تک حل ہوگئی ہے کہ ہرصبح پلنگ کی چادرجھاڑتے ہیں توسینکڑوں کھٹمل گرتے ہیں۔ یقیناًیہ نکوٹین ہی کے اثرسے کیفرکردار کوپہنچتے ہوں گے۔ ورنہ اول تویہ ناسمجھ جنس اتنی کثیرتعداد میں متحد ہو کرخودکشی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ دوم، آج تک سوائے انسان کے کسی ذی روح نے اپنے مستقبل سے مایوس ہوکرخودکشی نہیں کی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ مرزااپنے خون کوخراب ثابت کرنے میں کچھ مبالغہ کرتے ہوں۔ لیکن اتنا توہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ وہ سگرٹ کے دھوئیں کے اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ صاف ہواسے کھانسی اٹھنے لگتی ہے
اوراگردو تین دن تک سگرٹ نہ ملے توگلے میں خراش ہوجاتی ہے۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا (اورہم نے مرزاسے بہت پہلے ہوش سنبھالا) مرزاکے منہ میں سگرٹ ہی دیکھی۔ ایک مرتبہ ہم نے سوال کیا کہ تمھیں یہ شوق کس نے لگایا توانھوں نے لطیفے داغنے شروع کردیے۔
”اللہ بخشے والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بچوں کوسگرٹ نہیں پیناچاہیے- اس سے آگ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم پیتے رہے۔ عرصے تک گھروالوں کویہی غلط فہمی رہی کہ ہم محض بزرگوں کو چڑانے کے لیے سگرٹ پیتے ہیں۔“
”مگرمیں نے پوچھا تھا کہ یہ چسکا کس نے لگایا؟“
”میں نے سگرٹ پینا اپنے بڑے بھائی سے سیکھا جب کہ ان کی عمرچارسال تھی۔“
”اس رفتارسے انھیں اب تک قبرمیں ہوناچاہیے۔“
”وہ وہیں ہیں!“
اس کے باوجود مرزا کسی طرح یہ ماننے کو تیارنہیں کہ وہ عادتاً سگرٹ پیتے ہیں۔ یہ مسئلہ جب بھی زیربحث آیا، انھوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ سگرٹ کسی گمبھیرفلسفے کے احترام میں یا محض خلق خدا کے فائدے کے لیے پی رہے ہیں-
طوعاًوکرہاً!کوئی تین برس ادھرکی بات ہے کہ شدہ شدہ مجھ تک یہ خبرپہنچی کہ مرزا پھرتائب ہوگئے اورکامل چھتیس گھنٹے سے ایک سگرٹ نہیں پی۔ بھاگم بھاگ مبارک باد دینے پہنچا تونقشہ ہی اور پایا۔ دیکھا کہ تہنیت گزاروں کا ایک غول رات سے ان کے ہاں فروکش ہے۔ خاطرمدارات ہورہی ہیں۔ مرزاانھیں سگرٹ پلارہے ہیں اور وہ مرزا کو۔ مرزا ماچس کی ڈبیا پر ہر ایک فقرے کے بعد دو انگلیوں سے تال دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:
”بحمداللہ!(تال)میں جوا نہیں کھیلتا(تال)شراب نہیں پیتا(تال) تماش بینی نہیں کرتا(تال) اب سگرٹ بھی نہ پیوں توبڑاکفران نعمت ہوگا“(تین تال)
میں نے کہا”لاحول ولاقوة! پھریہ علت لگالی؟“
مجمع کی طرف دونوں ہاتھ پھیلاکرفرمایا ”یارو!تم گواہ رہنا کہ اب کی بارفقط اپنی اصلاح کی خاطر توبہ توڑی ہے۔ بات یہ ہے کہ آدمی کوئی چھوٹی موٹی علت پال لے تو بہت سی بڑی علتوں سے بچارہتاہے ۔ یہ کمزوریاں(MINOR VICES)انسان کوگناہ کبیرہ سے بازرکھتی ہیں۔ اوریادرکھو کہ دانا وہی ہے جوذرا محنت کرکے اپنی ذات میں کوئی ایسا نمایاں عیب پیدا کر لے جواس کے اصل عیبوں کو ڈھانپ لے۔“
”اپنے پلے کچھ نہیں پڑرہا۔“
اپنے ستارعیوب کا پیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے”یہ پیو گے توخود بخود سمجھ میں آ جائے گا۔اس فلسفے میں قطعی کوئی ایچ پیچ نہیں۔ تم نے دیکھا ہوگا۔ اگرکوئی شخص خوش قسمتی سے گنجا، لنگڑا یا کانا ہے تواس کا یہ سطحی عیب لوگوں کواس قدرمتوجہ کرلیتا ہے کہ اس کے عیبوں کی طرف کسی کی نظرنہیں جاتی۔ مثال میں جولیس سیزر، تیمورلنگ اوررنجیت سنگھ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے کسی سو فیصدی پارسا آدمی سے مل کرکسی کا جی خوش نہیں ہوتا تم جانتے ہو کہ میں آوارہ داد باش نہیں، فاسق و فاجرنہیں، ہرجائی اورہرچگ نہیں۔ لیکن آج بھی(یہاں مرزا نے بہت سا لذیذ دھواں چھوڑا)- لیکن آج بھی کسی خوب صورت عورت کے متعلق یہ سنتا ہوں کہ کہ وہ پارسا بھی ہے تو نہ جانے کیوں دل بیٹھ ساجاتاہے۔“
”مرزا!سگرٹ سبھی پیتے ہیں مگرتم اس اندازسے پیتے ہو گویا بدچلنی کررہے ہو!“
”کسی اچھے بھلے کام کوعیب سمجھ کرکیا جائے تواس میں لذت پیداہوجاتی ہے۔ یورپ اس گرکوابھی نہیں سمجھ پایا۔ وہاں شراب نوشی عیب نہیں۔ اسی لیے اس میں وہ لطف نہیں آتا۔“
”مگرشراب توواقعی بری چیزہے! البتہ سگرٹ پینا بری بات نہیں۔“
”صاحب !چارسگرٹ پہلے یہی بات میں نے ان لوگوں سے کہی تھی۔ بہرکیف میں یہ ماننے کے لیے تیارہوں کہ سگرٹ پینا گناہ صغیرہ ہے۔ مگرغصہ مجھے ان سادہ لوح حضرات پر آتا ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ سگرٹ نہ پینا ثواب کا کام ہے۔ ماناکہ جھوٹ بولنا اورچوری کرنا بری بات ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ان کوہربارسچ بولنے اورچوری نہ کرنے پرطلائی تمغہ دے گی۔“
پھرایک زمانہ ایسا آیاکہ مرزا تمام دن لگاتارسگرٹ پیتے مگرماچس صرف صبح جلاتے تھے۔ شمار یاد نہیں۔ لیکن ان کااپنا بیان ہے آج کل ایک دن میں بیس فٹ سگرٹ پی جاتاہوں اوروہ بھی اس شکل میں کہ سگرٹ عموماًاس وقت تک نہیں پھینکتے ،جب تک انسانی کھال جلنے کی چراند نہ آنے لگے ۔ آخرایک دن مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اورمیں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا مرزا! آخرکیا ٹھانی ہے؟
میری آنکھوں میں دھوا ں چھوڑتے ہوئے بولے”کیا کروں۔ یہ موذی نہیں مانتا۔“
مرزااپنے نفس عمارہ کو(جس کامحل وقوع ان کے نزدیک گردن کے جنوب مغربی علاقے میں ہے)اکثراسی نام سے یاد کرتے، چمکارتے اورللکارتے ہیں۔
میں نے کہا”فرائڈکے نظریہ کے مطابق سگرٹ پینا ایک رجعتی اوربچگانہ حرکت ہے۔ جنسی لحاظ سے نا آسودہ افراد سگرٹ کے سرے کوغیرشعوری طورپر NIPPLE کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔“
”مگرفرائڈ توانسانی دماغ کو ناف ہی کا ضمیمہ سمجھتاہے!“
”گولی ماروفرائڈکو!بندہ خدا! اپنے آپ پررحم نہیں آتا تو کم ازکم اس چھوٹی سی بیمہ کمپنی پرترس کھاو۔ جس کی پالیسی تو نے لے ہے۔ نئی نئی کمپنی ہے۔ تمھاری موت کی تاب نہیں لاسکتی۔ فوراً دیوالے میں چلی جائے گی۔“
” آدمی اگرقبل ازوقت نہ مرسکے توبیمے کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے۔“
”مرزا!بات کومذاق میں نہ اڑاو۔ اپنی صحت کادیکھو۔ پڑھے لکھے آدمی ہو۔ اخباراوررسالے اس کی برائی میں رنگے پڑے ہیں۔“
”میں خود سگرٹ اورسرطان کے بارے میں اتنا کچھ پڑھ چکا ہوں کہ اب مطالعہ سے نفرت ہوگئی!“انھوں نے چٹکلہ دہرایا۔
اس مد میں بچت کی جومختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرزاسارے دن مانگ تانگ کرسگرٹ پیتے ہیں۔(ماچس وہ اصولاً اپنی ہی استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماچس مانگنا بڑی بے عزتی کی بات ہے۔ آڑے وقت میں رسید لکھ کرکسی سے سو دو سو روپے لینے میں سبکی نہیں ہوتی۔ لیکن رسید کا ٹکٹ بھی اسی سے مانگنا شان قرض داری کے خلاف ہے) دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے مارکہ کے سگرٹوں پراتر آتے ہیں جن کووہ پیکٹ کی بجائے سگرٹ کیس میں رکھنااورالٹی طرف سے جلانا ضروری خیال کرتے ہیں۔
لیکن نودس ماہ پیشترجب موذی اس طرح بھی بازنہ آیا تو مرزا نے تیسرا اور آخری حربہ استعمال کیا۔یعنی سگارپینا شروع کردیا جو ان کے ہاتھ میں چھڑی اورمنہ میں نفیری معلوم ہوتاتھا۔ پینے، بلکہ نہ پینے، کا اندازیہ تھا کہ ڈرتے ڈرتے دوتین اوپری کش لے کراحتیاط سے بجھا دیتے اورایک ڈیڑھ گھنٹے بعداوسان درست ہونے پر پھرجلا لیتے تھے۔ ان کاعقیدہ ہے کہ اس طریقہ استعمال سے طلب بھی مٹ جاتی ہے اورسگارکی عمربڑھ جاتی ہے سوالگ - (یہاں اتنااورعرض کردوں تونامناسب نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی جوانی کوبھی اسی طرح سینت سینت کررکھناچاہا، اس لیے قبل ازوقت بوڑھے ہوگئے)۔چنانچہ ایک ہی سگارکودن بھر” آف “اور” آن“کرتے رہتے ۔ پھرچراغ جلے اسی کوٹیکتے ہوئے کافی ہاوس پہنچ جاتے۔ خلق خدا ان کوغائبانہ کیا کہتی ہے، اس پرانھوں نے کبھی غورنہیں کیا۔ لیکن ایک دن دھوا ں منہ کامنہ میں رہ گیا، جب انھیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کا جلتا بجھتا سگاراب ایک طبقاتی علامت (سمبل) بن چکا ہے۔ ہوا یہ کہ کافی ہاوس کے ایک نیم تاریک گوشے میں آغاعبدالعلیم جام منہ لٹکائے بیٹھے تھے ۔ مرزاکہیں پوچھ بیٹھے کہ آغا آج بجھے بجھے سے کیوں ہو؟ آغا نے اپنی خیریت اوردیگراحوال سے یوں آگاہی بخشی:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے سگارمفلس کا
ایک ایسی ہی اداس شام کی بات ہے ۔ مرزاکافی ہاوس میں موذی سے بڑی بے جگری سے لڑرہے تھے اورسگارکے یوں کش لگارہے تھے گویا کسی راکھشش کا دم نکال رہے ہیں۔ میں نے دل بڑھانے کوکہا”تم نے بہت اچھاکہ کہ سگرٹ کاخرچ کم کر دیا۔ روپے کی قوت خرید دن بدن گھٹ رہی ہے۔دوراندیشی کا تقاضا ہے کہ خرچ کم کرواوربچاو زیادہ۔“
سگارکوسپیرے کی پونگی کی مانند دھونکتے ہوئے بولے”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ آج کل ایک آنے میں ایک سالم سگرٹ مل جاتا ہے۔دس سال بعد آدھی ملے گی!“
میں نے بات آگے بڑھائی۔ لیکن ہم یہی ایک آنہ آج پس انداز کرلیں تودس سال بعد معہ سوعدد دو آنے ہوجائے گیں۔“
”اوراس دونی سے ہم ایک سالم سگرٹ خرید سکیں گے جو آج صرف ایک آنے میں مل جاتی ہے!“
جملہ مکمل کرتے ہی مرزا نے اپنا جلتا ہواعصا زمین پر دے مارا۔ چند لمحوں بعد جب دھوئیں کے بادل چھٹے تومرزا کے اشارے پرایک بیرا پلیٹ میں سگرٹ لیے نمودارہوا اور مرزا ایک آنے میں دو آنے کامزہ لوٹنے لگے۔
پندارکا صنم کدہ ویراں کیے ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ کسی نے مرزا کوپٹی پڑھا دی کہ سگرٹ ترک کرنا چاہتے ہوتو حقہ شروع کردو۔ ان کے لیے یہ ہومیوپیتھک مشورہ کچھ ایسا نیا بھی نہ تھا۔ کیوں کہ ہومیوپیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چھوٹا مرض دور کرنے کے لیے کوئی بڑا مرض کھڑاکردو۔ چنانچہ مریض نزلے کی شکایت کرے تو دوا اسے نمونیہ کے اسباب پیدا کردو۔ پھرمریض نزلے کی شکایت نہیں کرے گا۔ہومیوپیتھی کی کرے گا!
بہرحال ،مرزا نے حقہ شروع کردیا اور وہ بھی اس اہتمام سے کہ گھنٹوں پہلے پیتل سے منڈھی ہوئی چلم اورنقشین فرشی، لیمواورکپڑے سے اتنی رگڑی جاتی کہ جگرجگرکرنے لگتی۔ نیچہ عرق گلاب سے ترکیاجاتا۔ نے پرموتیا کے ہارلپیٹے جاتے۔ مہنال کیوڑے میں بسائی جاتی۔ایک حقہ بھی قضا ہو جاتا تو ہفتوں اس کا افسوس کرتے رہتے ۔ بندھا ہوا معمول تھا کہ پینے سے پہلے چارپانچ منٹ تک قوام کی تعریف کرتے اورپینے کے بعدگھنٹوں ”ڈیٹول“ سے کلیاں کرتے۔ اکثر دیکھا کہ حقہ پیتے جاتے اور کھانستے جاتے اور کھانسی کے مختصر وقفے میں سگرٹ کی برائی کرتے جاتے۔ فرماتے تھے کہ ”کسی دانا نے سگرٹ کی کیا خوب تعریف کی ہے- ایک ایسا سلگنے والا بد بودار مادہ جس کے ایک سرے پر آگ اوردوسرے پراحمق ہوتا ہے۔ لیکن مشرقی پیچوان میں اس امر کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے کہ کم سے کم جگہ گھیر کر تمباکو کو زیادہ سے زیادہ فاصلے پر کر دیا جائے۔“
میں نے کہا”یہ سب درست! مگراس کا پینا اور پلانا درد سریہ بھی تو ہےاس سے بہتر توپائپ رہے گا۔ تند بھی ہے اورسستا کا سستا۔“
چلم کے انگاروں کودہکاتے ہوئے بولے”بھائی! اس کوبھی آزماچکا ہوں تمھیں شاید معلوم نہیں کہ پائپ میں تمباک وسے زیادہ ماچس کا خرچ بیٹھتا ہے ورنہ یہ بات ہرگزنہ کہتے۔ دوماہ قبل ایک انگلش پائپ خرید لایا تھا۔ پہلے ہی روز نہار منہ ایک گھونٹ لیا تو پیٹ میں ایک غیبی گھونسا سا لگا۔ آنکھ میچ کے دو چار گھونٹ اور لیے تو باقاعدہ باکسنگ ہونے لگی۔ اب اس پائپ سے بچیاں اپنی گڑیوں کی شادی میں شہنائی بجاتی ہیں۔“

 
سخنور صاحب بہت بہت شکریہ۔۔
یہ اقتباس پڑھتے ہوئے اگر قریب شاگرد نہ ہوتے تو شاید ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتا۔۔
اسی لئے ابھی درمیان میں چھوڑ دیا کہ کہیں بے ساختہ قہقہہ نہ نکل جائے۔
باقی انشاء اللہ مغرب کے بعد پڑھوں گا۔۔۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
امجد اسلام امجد زرگزشت پر رائے دیتے ہوئے۔

البتہ جاتے جاتے یوسفی کے فن تحریف نگاری کی چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔پوری کتاب میں انہوں نے جگہ جگہ اس فن کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن حیرت کی بات کہ انکی کامیابی کا اوسط سو فیصد ہے اور یہ تو غالبا آپ کو پتہ ہوگا کہ ایک سو میں سو فیصد سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔
“بندہ مزدور کی اوقات“
“کم خرچ بالاخانہ نیشن۔“
“پیسے پیسے اور زنان شبینہ کو محتاج ہوگئے۔“
“جوش صاحب کی طرح داستان امیر غمزہ سنانے اور اپنے دامن کو خود ہی آگے سے پھاڑنے کے بعد۔“
“خاندانی منصوبہ بندیکے مطابق دستور الحمل بنایا جاتا ہے۔“
“کیا فدوی کیا فدوی کاشوربہ۔“
“چالیس سفید گھوڑیاں علیحدہ اصطبل میں بندھی رہتی تھیں،جہاں مردو ں کا داخلہ ممنوع تھا۔“
“تجھے اٹھیکیاں سوجھی ہیں ہم بیدار بیٹھے ہیں۔“
اور اب آخر میں بالکل ہی چلتے چلتے چند جملے بھی (چلتے چلتے آپ کے اور میرے لیے ہے،جملوں کے لیے نہیں)
“ایجاد اور اولاد کے لچھن پہلے ہی سے معلوم ہوجایا کرتے تو دنیا میں کوئی بچہ ہونے دیتا اور نہ ایجاد۔“
“قرضہ جات کو پرزہ جات میں ڈھالنا اس صاحب ایجاد کے بائیں ہاتھ کاکھیل تھا۔“
“جس کی انگریزی اس کے چال چلن سے بھی ٹوٹی پھوٹی تھی۔“
“ڈان اخبار کی ردی نکلی،چند لاشیں بھی برآمد ہوئیں،یہ ان چوہوں کی تھیں جو اخبار مذکور الصدر کا ایڈیٹوریل کھاتے ہی ڈھیر ہوگئےتھے۔“
“ہماری چال شطرنج کے گھوڑے ایسی ہوگی ۔“
“مگر ہم نے جو کھیل دیکھا اس میں تو پرتھوی راج گھوڑے کی بجائے سنجوگتا کے ایڑھ لگا رہاتھا۔“
“ہمارے ہاں کوئی بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کرلے تو پرائمری ،سکول میں ماسٹر ہوجاتاہےاور فیل ہوجائے تو فوج میں کپتان۔“
“دو تین غزلیں ہمیں بھی سنائیں۔ 25 فیصد اشعار وزن سے گرے ہوئے تھے،بقیہ تہذیب سے۔“
“مال بردار جہاز سے پسنجر کس طرح چھڑایا جاتا ہے۔“
“بحری جہاز کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسکا ائیر کریش نہیں ہوتا۔“
“ایک انگلی س ہجے کرکے اس طرح ٹائپ کی جیسے ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید گانا ٹائپ کرتی ہیں۔“
“سب جانوروں اور پرندوں کو پشتو میں گالی دیتے تھے لیکن کبوتر کو اردو میں خطاب فرماتے ،کہتے تھے کبوتر سید ہوتا ہے۔“
“صاحبو! گیلا غسل شدہ کتا سوکھے کتے سےکہیں زیادہ پلید ہوتا ہے۔“
“ہم نے کہا یہ تو پطرس کی سائیکل معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔میری ہی ہے۔کیا وہ چاکیواڑہ میں رہتا ہے۔“
قصہ مختصر یہ کہ زرگزشت میں چراغ تلے اور خاکم بدہن کے یوسفی نے عمدہ مزاح کی ایک ایسی بلند سطح تک رسائی حاصل کی ہے جو فی الوقت اردو مزاح نگاری کی بلند ترین سطح ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دن بیٹھے بیٹھے ہمیں یوں ہی خیال آیا کہ اگر اب ہمیں نئی پود کے لڑکوں کو نیک چلنی کی تلقین کرنی ہو تو چوری اور بدنیتی کی کونسی مثال دیں گے جس سے بات ان کے دل میں اُتر جائے۔ معاً ایک ماڈرن مثال ذہن میں آئی جس پر ہم یہ داستان ختم کرتے ہیں:

مثال: ایمان دار لڑکے نے ایک الماری میں بلو فلم اور Cannabis کے سگریٹ رکھے دیکھے۔ وہ انہیں اچھی طرح پہنچانتا تھا۔ اس لیے کہ کئی مرتبہ گریمر اسکول میں اپنی کلاس کے لڑکوں کے بستوں میں دیکھ چکا تھا۔ ان کی لذّت کا اسے بخوبی اندازہ تھا۔ مگر وہ اس وقت نشہ نصیحتِ پدری سے سرشار تھا۔ سونگھ کر چھوڑ دیے۔

وضاحت: درحقیقت اس کی تین وجہیں تھیں۔ اوّل، اس کے ڈیڈی کی نصیحت تھی کہ کبھی چوری نہ کرنا۔ دوم، ڈیڈی نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ بیٹا فسق و فجور کے قریب نہ جانا۔نظر ہمیشہ نیچی رکھنا۔ سب سے باؤلا نشہ آنکھ کا نشہ ہوتا ہے۔ اور سب سے گندہ گناہ آنکھ کا گناہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد گناہ ہے جس میں بزدلی اور نامَردی بھی شامل ہوتی ہے۔ کبھی کوئی برا خیال دل میں آ بھی جائے تو فوراً اپنے پیرومرشد کا اور اگر تم بے پیرے ہو تو خاندان کے کسی بزرگ کی صورت کا تصّور باندھ لینا؛ چنانچہ ایمان دار لڑکے کی چشمِ تصّور کے سامنے اس وقت اپنے ڈیڈی کی شبیہ تھی۔

اور تیسری وجہ یہ کہ مزکورہ بالا دونوں ممنوعہ اشیا اس کے ڈیڈی کی الماری میں رکھی تھیں!

واہ وا شاباش لڑکے واہ وا!
تو بزرگوں سے بھی بازی لے گیا!

آبِ گم کے آخری جملے بشکریہ رضوان و سراب

---------------

پچھلے اٹھارہ سال سے حسرت ہی ہے کہ آبِ گم کا دوسرا حصہ پڑھنے کو ملے جس کا ذکر یوسفی نے آبِ گم میں ہی کیا ہے۔

ع - اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
 
"آبِ گم" - مشتاق احمد یوسفی


اقتباس یہ لندن ہے


یوں لندن بہت دلچسپ جگہ ہے !
اس کے علاوہ بظاہر اور کوئی خرابی نظر نہیں آتی کہ غلط جگہ واقع ہوا ہے ۔ تھوڑی سی بےآرامی ضرور ہے۔ مثلاً مطلع ہمہ وقت ابر وکہرآلود رہتا ہے۔ صبح اور شام میں تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگ A.M اور P.M بتانے والی ڈائل کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔
موسم ایسا جیسے کسی کے دل میں بغض بھرا ہو۔
گھر اتنے چھوٹے اور گرم کہ محسوس ہوتا ہے کمرہ اوڑھے پڑے ہیں۔
پھر بقول ملک الشعرا فلپ لارکن یہ کیسی مجبوری کہ :
Nowhere to go but indoors!
روشن پہلو یہ کہ شائستگی ، رواداری اور بردباری میں انگریزوں کا جواب نہیں۔ مذہب ، سیاست اور سیکس پر کسی اور کیسی بھی محفل میں گفتگو کرنا خلافِ تہذیب اور انتہائی معیوب سمجھتے ہیں ۔۔۔ سوائے پَب (شراب خانہ) اور بار کے!
گمبھیر اور نازک مسائل پر صرف نشے کی حالت میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
بےحد خوش اطوار اور ہمدرد۔ کار والے اتنے خوش اخلاق کہ اکلوتے پیدل چلنے والے کو راستہ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی راہ کھوٹی کر کے سارا ٹریفک روک دیتے ہیں۔

برطانیہ میں رہنے والے ایشیائیوں میں سو میں سے ننانوے ان خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے نہ جانے کب سے کھڑے ہیں۔
(رہا سواں آدمی ، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا)
نہ ان رنگ برنگے پرندوں کے نام جو منہ اندھیرے اور شام ڈھلے ان پر چہچہاتے ہیں۔
اور نہ اس گرل فرینڈ کے بالوں کا شیڈ بتا سکتے ہیں جس کے ساتھ رات بھر بڑی روانی سے غلط انگریزی بولی ۔۔۔
گولڈن آبرن ، کاپر آبرن ، ایش بلانڈ ، چیسٹ نٹ براؤن ، ہیزل براؤن ، برگنڈی براؤن ؟ ۔۔۔ کچھ معلوم نہیں۔
ان کی خیرہ نگاہیں تو ، جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو ، کے فلمی مقام پر آ کر ٹھہر جاتی ہیں۔
 
Ye jo apne likha hai
Hum mazah k ehd e yusfi mai jee rhe hn
...ye ibne insha ka qol ni h bal k zaheer fateh poori ka hai..kindly check it ...ots my humble request
محترمہ لائبہ چوہدری صاحبہ! اردو محفل فورم میں خوش آمدید۔ یہاں رومن اردو نہیں چلتی بلکہ یونیکوڈ اردو چلتی ہے۔

اس مراسلے پر تبصرہ کرنے میں آپ کچھ تاخیر کا شکار ہوگئی ہیں۔ مراسلہ 2010 کا ہے اور مراسلہ نگار اب محفل کے ممبر نہیں رہے۔ بہرحال اہم معلومات شریکِ محفل کرنے کا شکریہ قبول فرمائیے۔
 
Top