کاشفی

محفلین
غزل
(راشد آزر)
ہم سوچتے تھے طاقتِ گفتار رہ گئی
پر ہم میں صرف جراءتِ انکار رہ گئی

شہرِ ہوس نے لُوٹی متاعِ ہنر تو کیا
بیدار دل میں خواہشِ پیکار رہ گئی

رخصت ہوئی اُمیدِ وصال آرزو کے ساتھ
لے دے کے ایک حسرتِ دیدار رہ گئی

ذوقِ جگر خراشی کہاں، خوش دِلی کہاں
سب کھو چکے ہیں، چشم گنہگار رہ گئی

ہے فخر ہم کو، گردشِ ایّام کے طفیل
سب لُٹ گیا، صلابتِ کردار رہ گئی

سازش کے جب شکار ہوئے ہم سے متعبر
آزر، قبائیں چھِن گئیں، دستار رہ گئی
 
Top