ہم ایک عمر اسی غم میں مبتلا رہے تھے ۔ تہذیب حافی

ہم ایک عمر اسی غم میں مبتلا رہے تھے
وہ سانحے ہی نہیں تھے جو پیش آ رہے تھے

اسی لیے تو مرا گاؤں دوڑ میں ہارا
جو بھاگ سکتے تھے بیساکھیاں بنا رہے تھے

میں جانتا ہوں تُو اُس وقت بھی نہیں تھا وہاں
یہ لوگ جب تری موجودگی منا رہے تھے

میں گھر میں بیٹھ کے پڑھتا رہا سفر کی دعا
اور اُن کے واسطے جو مجھ سے دور جا رہے تھے

وہ قافلہ تری بستی میں رات کیا ٹہھرا
ہر اک کو اپنے پسندیدہ خواب آ رہے تھے

بغیر پوچھے بیاہے گئے تھے ہم دونوں
قبول کہتے ہوئے ہونٹ تھر تھرا رہے تھے

تہذیب حافی
 
Top