محسن نقوی (ہم ایسے لوگ بہت ہیں۔۔)‏‌ محسن نقوی

بنگش

محفلین
یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاو تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دیہان کیا دینا
تم اپنےدل میں دھڑکتے ہوے حروف سنو

تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتےر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسماں ملتے رہیں

نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں
سکوت حلقہ زنجیر در بھی کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں

ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ

یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت
 
Top