عرفان صدیقی ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں

ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں
عجب درخت ہیں، دشت بلا میں زندہ ہیں

گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم
اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں

گلی میں ختم ہوا قافلے کا شور، مگر
مسافروں کی صدائیں سرا میں زندہ ہیں

مجھے ہی کیوں ہو کسی اجنبی پکار کا خوف
سبھی تو دامن کوہ ندا میں زندہ ہیں

خدا کا شکر، ابھی میرے خواب ہیں آزاد
مرے سفر، مری زنجیرہا میں زندہ ہیں

ہوائے کونۂ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
 
Top