ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی ( ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)

ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی

( سید ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)


شاعری اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا ہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا ہے۔رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔

اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی وزن و اخلاق سے گری ہوئی شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کربیٹھنے( گزرنے)کے اسی جذبے کے تحت ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ اور بن لکھی رزمیہ کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ سالوں کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچائے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب سے ہی فارغ التحصیل نہیں ہوپائے۔

ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہ بنیادی کتابیں تھیں جو ہمارے لیے حصول علم کا ذریعہ تھیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دبوچا اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔

اردوکی پہلی کتاب کھولی تو ایک عجب ماجرا ہوا۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے فوراً ان گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ۔ خدا کی کرنی ، ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا اور اسی فامولے کے تحت اپنی اور دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔



کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔سنا ہے استادوں سے بڑھکر استادی کے داؤں پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپئے آزار ہیں۔ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ ڈھلتی عمر میں

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر​

کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔

وا حسرتا ! کہ ہمارے مستقبل کے خواب کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ نہ ہوئی قرولی، ہمارا مطلب ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔

اب ذرا لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا تذکرہ بھی ہو ہی جائے۔ کس کس طرح یہ ظالم اصحاب نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے۔ کبھی کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کبھی کچھ اورالزام اور کبھی کچھ اور۔


ہمیں اپنا نہیں استادِ والا، غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے​

ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ دہائی ہے دہائی۔

اسی دن کو تو قتلِ شاعراں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ بے شاعراں ہو کر​
 
آخری تدوین:
ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی

( ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)


شاعری اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا ہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا ہے۔رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔

اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی وزن و اخلاق سے گری ہوئی شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کربیٹھنے( گزرنے)کے اسی جذبے کے تحت ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ اور بن لکھی رزمیہ کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ سالوں کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچائے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب سے ہی فارغ التحصیل نہیں ہوپائے۔

ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہ بنیادی کتابیں تھیں جو ہمارے لیے حصول علم کا ذریعہ تھیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دبوچا اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔

اردوکی پہلی کتاب کھولی تو ایک عجب ماجرا ہوا۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے فوراً ان گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ۔ خدا کی کرنی ، ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا اور اسی فامولے کے تحت اپنی اور دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔



کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔سنا ہے استادوں سے بڑھکر استادی کے داؤں پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپئے آزار ہیں۔ ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ ڈھلتی عمر میں

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔

وا حسرتا ! کہ ہمارے مستقبل کے خواب کچی مٹی کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ نہ ہوئی قرولی، ہمارا مطلب ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔

اب ذرا لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا تذکرہ بھی ہو ہی جائے۔ کس کس طرح یہ ظالم اصحاب نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے۔ کبھی کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کبھی کچھ اورالزام اور کبھی کچھ اور۔


ہمیں اپنا نہیں استادِ والا، غم تمہارا ہے

کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے

ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔ دہائی ہے دہائی۔

اسی دن کو تو قتلِ شاعراں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ بے شاعراں ہو کر
غضب خدا کا :)
کیا خوب لکھا شروع سے لے کر آخر تک چسکے لے لے کر پڑھا اور جس طرح چھوٹے بچے چاکلیٹ کھا کر تا دیر ہونٹوں پر زبان پھیرتے رہتے ہیں کچھ یہ ہی حال ہوا تحریر کی چاشنی اور مٹھاس ایسی ہے کہ پڑھنے کے بعد بھی تادیر محسوس ہوتی رہتی ہے اللہ آپ کے قلم کی تابناکی کو اسی طرح قائم دائم رکھے آمین
 
غضب خدا کا :)
کیا خوب لکھا شروع سے لے کر آخر تک چسکے لے لے کر پڑھا اور جس طرح چھوٹے بچے چاکلیٹ کھا کر تا دیر ہونٹوں پر زبان پھیرتے رہتے ہیں کچھ یہ ہی حال ہوا تحریر کی چاشنی اور مٹھاس ایسی ہے کہ پڑھنے کے بعد بھی تادیر محسوس ہوتی رہتی ہے اللہ آپ کے قلم کی تابناکی کو اسی طرح قائم دائم رکھے آمین
آداب عرض ہے جناب۔ آپ جیسے قدردان اور تعریف کرنے والے ہوں تو ہم کاہے کو لکھنا چھوڑیں گے۔خوش رہیئے
 

الف عین

لائبریرین
بہت عمدہ۔
ابھی تک ہماری دوکان پر گاہک تو ویسے ہی آ رہے ہیں۔ خدا کرے عروض اک انجن ایسا طاقتور ہو جائے کہ کوئی ہماری دوکان پر آئے ہی نہیں۔ کاش ایسا ہو، تو مجھے مزید کچھ مہلت مل جایا ۔کرے اپنا کام کرنے کی!!
 
اجی حضرت ! بات تو پوری کیجئے! بیچ چوراہے کے لا کر چھوڑ دیا!
حضرتِ اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ:
راہ دکھلاؤ ہمیں، رہروِ منزل جانو!​

مزید جسارتیں بجلی کی آئندہ آمد (غیر یقینی) تک ملتوی۔
 
بہت عمدہ۔
ابھی تک ہماری دوکان پر گاہک تو ویسے ہی آ رہے ہیں۔ خدا کرے عروض اک انجن ایسا طاقتور ہو جائے کہ کوئی ہماری دوکان پر آئے ہی نہیں۔ کاش ایسا ہو، تو مجھے مزید کچھ مہلت مل جایا ۔کرے اپنا کام کرنے کی!!

تصرف کی جسارت کے ساتھ:
وہ جو بیچتے ہیں دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا چلے​
 
بہت عمدہ۔
ابھی تک ہماری دوکان پر گاہک تو ویسے ہی آ رہے ہیں۔ خدا کرے عروض اک انجن ایسا طاقتور ہو جائے کہ کوئی ہماری دوکان پر آئے ہی نہیں۔ کاش ایسا ہو، تو مجھے مزید کچھ مہلت مل جایا ۔کرے اپنا کام کرنے کی!!
حضرت کا ایک خدشہ تو زائل ہوا!!
 
ہم بھی اپنی ’’استادی‘‘ کا ٹہکا بنانے کو کچھ کر گزریں؟ کچھ کر بیٹھے تو معاف کر دیجئے گا۔


شاعری کااور ہمارا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس طرح چولی کا دامن عنقا ہوتا جا رہاہے اسی طرح ہماری تُک بندی میں شاعری کا عنصر بھی مفقود ہوتا جا رہا تھا کہ رہی سہی کسر اردو محفل پر ہمارے کرم فرماؤں نے عروض پر زور دے دے کر پوری کردی۔ اگر ہم علم عروض جانتے ہوتے تو کاہے کو گانوں سے شغل رکھتے اور غسل خانے میں گانوں کی دھن پر غزلیں جوڑا کرتے۔ (شکر ہے آپ نے بیت الخلاء کو یہ شرف نہیں بخش دیا، ویسے فی زمانہ ’’اصل میں دونوں ایک ہیں)۔

اس تمام صورتِ احوال کے باوجود جانے کب اور کِس طرح (یہاں کیوں کر ہوتا تو کیسا ہوتا)ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ ہم نہ صرف شاعری جانتے ہیں بلکہ دیگر شاعروں کی اوزان و اخلاق سے بے نیاز شاعری کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ کر گزرنےکی اسی دھُن میں ایک دِن ہم نے شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ لکھ مارا۔اس قصے کی وجہِ تسمیہ (قصے کی وجہ تسمیہ نہیں ہوتی، کسی شے عمل وغیرہ کے نام کی ہوتی ہے) اور اَن لکھا یا اَن کہا رزمیہ (اردو میں یہ مذکر مستعمل ہے) کچھ یوں ہے کہ اردو کی کچھ بنیادی کتابیں ہم نے دوسروں کی نظروں سے چھپاکر الگ رکھ چھوڑی ہیں جنھیں گاہے بگاہے دیکھ لیتے ہیں۔ ان کتابوں میں ابنِ انشا کی طرز پر لکھی ہوئی مولانا محمد حسین آزاد کی ’’ اردو کی پہلی کتاب‘‘ (گویا ابنِ انشا نے اردو کی آخری کتاب پہلے لکھی اور آزاد نے اردو کی پہلع کتاب بعد میں؟) اور بچوں کے رسالے’’ پھول‘‘ کے گزشتہ برسوں (سالوں میں جورو کے بھائیوں کا اشتباہ ہوتا تھا) کے شماروں کا انتخاب شامل ہے۔ چھپا کر یوں رکھی ہیں کہ مبادا کوئی دیکھ لے اور شور مچا دے کہ ’’ لینا بھئی ! یہ ہیں خلیل صاحب جو خود کو اپنے تئیں شاعر (خود کو یا اپنے تئیں ۔ ایک کو رکھئے) گردانتے ہیں ، اور حال یہ ہے کہ ابھی اردو کی پہلی کتاب بھی پوری نہیں پڑھ پائے۔ (لفظیاتی تکلفات سے گریز بہتر ہے)۔

جاری ہے۔
 
آخری تدوین:
گزشتہ سے پیوستہ

ایک دن بیگم نے گھر کی حالت زار اور ردی والے کی مالی حالت پر رحم کھاتے ہوئے کچھ کتابیں نکالیں تو انہیں دیکھ کر ہم چونک اٹھے کہ یہی تو وہی بنیادی کتابیں ہیں جو ہمارے علم کے ٹھاٹھیں مارتے دریا کا منبع ہیں۔ ہم نے چُپ چاپ انہیں بغل میں دابا (دبوچنا مختلف عمل ہے)اور غسل خانے کی راہ لی کہ پرسکون مطالعے کی اب یہی ایک جگہ رہ گئی ہے۔

اردوکی پہلی کتاب کھولی تو عجب سانحہ یا واقعہ ہوا (ماجرا پہلے سے ہو چکے کسی واقعے کا ذکر ہوتا ہے)۔کئی نظموں پر گانوں کا گماں ہوا۔ ہم نے انہی گانوں کی دھن میں ان نظموں کو گنگنانا شروع کردیا۔ لو انڈ بی ہولڈ (زائد ہے)۔ خدا کی کرنی ، بغیر ایندھن کے چلنے والا ایک عروضی انجن تیار ہوگیا اور ہم نے اسے ’’ شاعری کا بنیادی قاعدہ‘‘ کے نام سے محفل پر شایع کردیا۔ اسی فامولے کے تحت اپنی اور ہوتے ہوتے دیگر محفلین کی شاعری کی اصلاح کرنے لگے۔ (جملے چھوٹے چھوٹے رکھئے، غیر ضروری عطف : اور، لیکن، تاہم، اگرچہ؛ وغیرہ سے بچئے)۔

اِدھر کچھ دنوں سے محفل پر ایک کرم فرما کے عروض انجن کا بہت تذکرہ ہے۔انجن کا موجد سنا ہے استادوں سے بڑھ کر (الفاظ کو بلاضرورت جوڑ کر لکھنا اچھا نہیں لگتا) استادی کے داؤ پیچ جانتا ہے ۔ اب جب کہ اس پروگرام کے سامنے استادوں کی بھی ایک نہیں چلنے کی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔جو اس کے سامنے ٹھہر پائیں گے (زاید ہے)۔ بھائی ذیشان تو ہمارے مستقل کے (زاید ہے، کہ خواب بمعنی خواہش، آرزو کا تعلق ہوتا ہی مستقبل سے ہے) خوابوں کے بھی درپے ہیں، بلکہ درپےء آزار ہیں۔

جاری ہے
 
آخری تدوین:
گزشتہ سے پیوستہ

ہم نے تو سوچ رکھا تھا کہ اس ڈھلتی عمر میں ’’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘‘ کے مصداق یہی ہنر لے کر بیٹھ رہیں گے اور آتے جاتے لوگوں کو شاعری سِکھایا کریں گے، مگر بھلا ہو ان پروگرامر صاحب کا کہ جنھوں نے یہ پروگرام بناتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشین کے ہوتے ہم انسانوں کی کیا وقعت رہ جائے گی کہ شاعری سکھائیں۔ لوگ باگ بازار سے پچاس روپے میں اس پروگرام کی سی ڈی مول لے آئیں گے اور بیٹھے غزلیں جوڑا کریں گے۔

وا حسرتا ! کہ ہمارےخواب مٹی کے کچے گھروندوں کی طرح ٹوٹ گئے بلکہ بکھر گئے اور ہم کسی اور ستم ظریف کے اس ارشاد کی مجسم تصویر بن گئے کہ:
خواب ٹوٹیں تو کچھ نہیں ہوتا
خواب بکھریں تو درد ہوتا ہے​

مدعا ہمارا یہ ہے کہ نہ ہوئے ہم ایک پروگرامر کہ ذیشان بھائی کے پروگرام کے جواب میں ایک عروضی انجن بستہ ب بناتے کہ جس میں دیگر اصنافِ سخن کے ساتھ ساتھ نثری نظم ( فاتح بھائی کے مشوروں کے ساتھ) کی اصلاح کے علاوہ علامتی افسانے کی اصلاح کا عنصر بھی شامل کرتے۔

اب ذرا (زاید ہیں: لگے ہاتھوں میں ان کے بھرپور معانی از خود موجود ہیں) لگے ہاتھوں استادانِ محفل کا ذکر خیربھی ہو ہی جائے۔ کہ کس کس طرح یہ ستم ظریف نو واردانِ بساطِ ہوائے دل یعنی نوزایدہ، نوآموز اور نووارد شاعروں کی مٹی پلید کرتے تھے (یہ الفاظ ابتذال کا شکار ہیں، کچھ اور لائیے)۔ کسی پر یہ الزام کہ ’نرگس‘ لکھنا بھی نہیں آتا اور اس لفظ کو بالالتزام ’نرگھس‘ لکھ رہے ہیں، کسی پر کچھ اور، کسی پر کچھ اور۔ نوبت بہ این جا رسید کہ بار ہا ہمارا جی چاہا کہ ان استادانِ گرامی کا بوچھ کچھ کم کرنے کو کسی اگلے جہان کو کیوں نہ سدھار جائیں۔ باز رکھا تو اس خیال نے کہ:
ہمیں اپنا نہیں استادِ والا، غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرماؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے​

ذیشان بھائی کے عروضی انجن نے ہمارے کھوکھے کو بند کیا ہی تھا،ان اونچی دکانوں پر بھی گویا شب خون ماردیا جہاں پھیکا پکوان تو کیا پھیکا پہلوان بھی میسر نہیں ہوتا۔ دُہائی تو یہ ہے کہ آج ان استادوں کو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔

اسی دن کو تو قتلِ شاعراں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو مصلحِ ناشاعراں ہو کر
 
آخری تدوین:
Top