ہمارا ملک عوامی صحت کی خدمات میں اتنا پیچھے کیوں؟

عارف عزیز(بھوپال)
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں انسانی صحت وتندرستی کو کافی اہمیت دی جارہی ہے امریکہ نے ہیلتھ انشورنس سیکٹر میں اصلاحات کرتے ہوئے ایسے اقدام کئے ہیں تاکہ امریکی شہریوں کو بہتر سے بہتر طبی سہولیتیں فراہم ہوسکیں، برطانیہ، فرانس، روس، چین، جاپان، اور جرمنی بھی اپنی قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ صحت کی خدمات پر صرف کررہے ہیں لیکن ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو یہاں جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے عوامی صحت پر اخراجات میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ایک طرف روز افزوں مہنگائی نے علاج ومعالجہ کو عام آدمی کی دسترس سے باہر کردیا ہے، دوسری طرف حکومت کی طرف سے جو اعلانات یا کارروائی ہورہی ہے اسے محض دکھاوے کا نام دیا جاسکتا ہے ، ریاستی سرکاروں نے بھی اس اہم شعبہ کو عدم توجہ کا شکار بنادیا ہے۔ جس کا تھوڑا بہت اندازہ ذیل کے اعداد وشمار سے ہوتا ہے۔

اکنامک سروے (۱۰۔۲۰۰۹) کے مطابق ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر پورے ملک میں ۲۰۴۸۶ ہیلتھ سے متعلق ذیلی مراکز، ۴۴۷۷ پی ایچ سی اور ۲۳۳۷ کمیونٹی ہیلتھ سینٹروں کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی، اس سروے کے مطابق ۱۳ فیصد ذیلی آبادکی پی ایچ سی تک، ۳۳ فیصد کو ذیلی طبی مراکز تک اور ۳.۲۸ فیصد کو کلینک تک رسائی حاصل تھی، اسی طرح ملک کے رجسٹرڈ اسپتالوں میں دو تہائی پرائیویٹ ہاسپیٹل تھے۔بعد میں کرائے گئے ملک بھر کے پی ایچ سی میں سروے کے مطابق اسپتالوں میں ڈاکٹروں کا اوسط ۱۸ فیصد، نرسوں کا ۱۵ فیصد اور پیرامیڈیکل میں ۳۰ فیصد جگہیں خالی ہیں، اس شعبہ میں غیر حاضری کا اوسط ۴۰ فیصد درج کیا گیا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ عوامی شعبہ میں دی جانے والی رشوت کا ۲۷ فیصد حصہ ہیلتھ سیکٹر میں دیا جاتا ہے، تحقیق کے مطابق ڈاکٹر نہ تو وقت پر اسپتال جاتے ہیں نہ ان کی خدمات تسلی بخش ہوتی ہیں، پھر بھی انہیں تنخواہ وغیرہ وقت پر ادا ہوتی ہے اور کسی قسم کے مواخذہ سے وہ محفوظ رہ کر منمانے طریقے سے کام کرتے ہیں۔
آج سے دس سال پہلے ۱۲ اپریل ۲۰۰۵ء کو قومی دیہی صحت مشن کا آغاز ہوا تھا جس کا مقصد مضافات اور دور دراز کے علاقوں میں غریب خاندانوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنا ہے، اس مشن پر ہر سال ۱۲ ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا تخمینہ تھا بعد کے سالوں میں اس کے خر چ میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ قومی صحت بیمہ اسکیم کادعویٰ ہے کہ اس نے غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے ۴۵ لاکھ خاندانوں کو ہر سال فائدہ پہونچایا ہے، انہیں اول میٹرک کارڈ دیئے گئے یا پھر جملہ اسکیموں سے استفادہ کا موقع فراہم کرایا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے دعوے کاغذ پر زیادہ ہیں، عملی طور پر ان کا نفاذ بہت کم ہوا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ پورے ملک میں ہر سال ۱۷ لاکھ سے زیادہ بچے اپنا پہلا یوم پیدائش نہیں منا پاتے اور ایک سال کے اندر ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں اسی لئے پوری دنیا کے بچوں کی اموات کے مقابلہ میں تپ دق سے ۳۰ فیصد، متعدی امراض سے ۶۸ فیصد اور ایڈس سے ۱۴ فیصد اموات درج ہوتی ہیں۔
۱۹۶۰ء کی دہائی میں ملیریا سے اموات پر موثر طور سے روک لگانے میں ملک کو کامیابی ملی تھی لیکن ۱۹۷۶ سے یہ مرض دوبارہ پھیلنے لگا اور آج ہر سال ۲۰ سے ۳۰ لاکھ لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان میں سانس سے متعلق انفیکشن اور ہیضہ کی شرح بھی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے ملک کی ایک تہائی آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ پھر بھی حالت یہ ہے کہ ۲۳ میٹرو شہروں میں رہنے والی آدھی آبادی کو مناسب میڈیکل سہولتیں دستیاب نہیں، ماہرین ڈاکٹروں کی تعداد ۶ لاکھ سے بڑھاکر ۲۰ لاکھ اور نرسوں کی موجودہ تعداد ۱۶ لاکھ سے بڑھاکر ۴۴ لاکھ کرنے کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں، دوسری طرف ملک میں کام کررہے میڈیکل کالجوں سے ہر سال صر ف ۱۶ ہزار ڈاکٹر ہی تیار ہوکر نکل رہے ہیں اور ان کی بھی خاصی تعداد ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں فزیشین کی اوسط تعدادایک لاکھ ہزار افراد پر ۵ء۱ ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب بہت کم یعنی ۶ء۰ سے زیادہ نہیں ، اسی طرح اسپتالوں میں بستروں کا عالمی اوسط ایک ہزار افراد پر ۹۸ء۳ ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب صرف ۹ء۰ فیصد ہے حالانکہ دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں چین کے بعد ہندوستان شمار ہوتا ہے اور برازیل و روس کا درجہ اس سے نیچے ہے لیکن میڈیکل شعبہ میں یہ ممالک ہندوستان کو کافی پیچھے چھوڑ چکے ہیں ماہرین عوامی صحت خدمات پر مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا کم سے کم ۵ء۲ فیصد خرچ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی دعویٰ یہی کری ہے وہ جی ڈی پی کا ۳ فیصد حصہ صحت خدمات پر خرچ کرنے کا عزم رکھتی ہے لیکن یہ عملی جامہ کب پہنے گا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا حالانکہ وزیراعظم نریندرمودی بھی اپنے ’من کی بات‘ پروگرام میں اس موضوع پر عوام کو مخاطب کرکے یقین دہانی کرچکے ہیں۔

FikroKhabar - Online Urdu News Portal - ہمارا ملک عوامی صحت کی خدمات میں اتنا پیچھے کیوں؟
 
Top