میر ہستی اپنی حباب کی سی ہے - میر تقی میر

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

چشمِ دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

آتشِ غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے

دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

کلام: میر تقی میرؔ
گلوکارہ: فریدہ خانم

 
Top