ہر کہ ازما است کہ برما است ۔۔۔۔از دکتور ظہور اعوان

Dilkash

محفلین
ہر کہ ازما است کہ برما است
جس ملک کے بااثر طبقے کا اوڑھنا بچھونا ہی کرپشن ہو‘ جہاں دھوکے باز‘ جعل ساز شریف زادے بن کر دندناتے اور غریب و لاچار لوگ زہر کھا کر مر رہے ہوں اس ملک کا کیا بنے گا۔ اب جعلی ڈگریوں کا معاملہ ہی لے لیں‘ پارلیمنٹ و اسمبلیوں کی ایک ہزار سے زیادہ ڈگریاں تصدیق کیلئے ایچ ای سی کو بھجوا دی گئی تھیں جن میں کئی جعلی نکلی ہیں۔

اصل معاملہ پارلیمنٹ و اسمبلی کی رکنیت کیلئے گریجویٹ ہونا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ اس جعل سازی‘ دھوکہ دہی اور قانون شکنی کا ہے جس کے یہ لوگ مرتکب ہوئے ہیں اور خدا‘ قانون اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ایک اور بڑا معاملہ جس کا میں حامی ہوں وہ اس سے بڑا ہے یعنی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کے بعد ان لوگوں کی زمینوں‘ جائیدادوں‘ محلات اور پلازوں کا بھی ان سے حساب لینا چاہئے اور پاکستان کا اصل روگ بھی یہی ہے اور علاج بھی۔

ان لوگوں کی تجوریوں اور توندوں سے یہ دولت نکلے گی تو قوم کی حالت سنبھلے گی۔ اس میں عوام کا قصور بھی ہے‘ وہی بار بار لٹیروں کو منتخب کر کے اقتدار تک پہنچاتے ہیں اور پھر بیٹھ کر دہائیاں دیتے ہیں ہم لٹ گئے‘ ہم برباد ہو گئے‘ اپنے تارا مسیح کا انتخاب تو ہم خود کرتے ہیں پھر گلہ کس بات کا۔ جب آپ لگڑ بھگڑوں‘ بھیڑیوں کو ایک باڑے میں جمع کر کے ان کو بھیڑوں‘ گائیوں اور دوسری بے گزند مخلوق کی حفاظت ان کے سپرد کرتے ہیں‘ چیل کے گھونسلے میں خود جا کر ماس رکھتے ہیں پھر خدا سے گلہ کرتے ہیں۔ قوم خود پہلے مر چکی ہے صرف گدھ ان کی لاش کو نوچنے کیلئے موجود و زندہ ہے

بعض لاشوں میں جان ہے‘ آنکھیں کھلی اور زندگی کی کچھ رمق موجود ہے ان کو بھی بھنبھوڑ کر کھایا جا رہا ہے۔ قوم بالکل بے حس ہو چکی ہے‘ سرمایہ دار و جاگیردار جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں‘ ان کا ہاتھ روکنے والی کوئی مؤثر اجتماعی قوت موجود نہیں ہے۔ مزدور نیم جان‘ کسان اپنے پسینوں میں غرق‘ دانشور مطلبی و بزدل‘ کس سے کس کا گلہ کیا جائے‘ اپنی قسمت خود بگاڑ کر اس کو کوسنے والوں کی مدد کو کون سا مسیحا آئیگا۔ سچے اسلام سے ہم آگاہ نہیں اس لئے عمل سے بیگانہ و بے نیاز ہیں‘ باقی رسمیات پر مبنی کام ہیں جنہیں ہم اسلام و عبادت کا نام دیتے ہیں

حرام کا مال صبح و شام بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھاتے ہیں‘ لمبے ڈکار لیتے ہیں پھر اسی رقم سے حج و عمرے کرتے ہیں‘ واپس آ کر لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں اس منافق قوم کا کیا بنے گا‘ ایک سزا تو قدرت نے یہیں سے دینی شروع کر دی ہے کہ ہم پر نااہل لوگ مسلط کر دیئے ہیں

ہر الیکشن کے بعد نئی حکومت سے اچھائی کی توقع ہوتی ہے مگر چند ہی مہینوں میں وہ دم توڑ دیتی ہے پھر پچھلی گورنمنٹ یاد آتی ہے۔ بقول علامہ اقبال کفن چوروں کا ایک گروہ مشترکہ وارداتوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہا ہے اور بکری صفت عوام بیں بیں اور میں میں کرتے اچھے دنوں کا انتظار کرتے ہیں مگر ان کی ماں کب تک خیر منائے گی

ان کی موت کے پروانے تو کب کے جاری ہو چکے ‘ حکمرانوں و سیاستدانوں کو چھریاں کلہاڑے تھما دیئے گئے ہیں اب کوئی بھاگ کر کدھر جائیگا۔ عوام کا اعتماد پاکستانی اداروں اور جمہوریت سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے‘ اس لئے جس کو موقع ملتا ہے لوٹ مار میں مصروف نظر آتا ہے‘ غریب غربت کے ہاتھوں مر رہے ہیں مگر ایک سرمایہ دار کی پجارو کا پہیہ پنکچر نہیں ہوتا نہ ان کو لوڈ شیڈنگ‘ مہنگائی‘ بھوک و افلاس کا پتہ ہے‘ بس بچہ جمورا کا یہ کھیل جاری رہے گا نہ جانے کب تک؟
 
Top