ہر چوتھی لڑکی کو آن لائن ہراسگی کا سامنا۔

ايمنسٹی انٹرنيشنل نے اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ سوشل ميڈيا کمپنياں اور حکومتيں، آن لائن پليٹ فارمز پر عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے ميں ناکام ثابت ہوئی ہيں، قریب ایک چوتھائی عورتوں کو آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے۔

اس سلسلے ميں کرائے گئے ايک تازہ سروے ميں دنيا کے 8ملکوں سے چار ہزار لڑکيوں نے شرکت کی۔

23 فيصد لڑکيوں کے مطابق ان کی زندگيوں ميں کم از کم ايک مرتبہ انہيں آن لائن ہراساں کيا گيا۔

اس سلسلے ميں امريکا نماياں رہا، جہاں33فيصد خواتين نے آن لائن ہراساں کيے جانے کی شکايت کی جب کہ ايسے واقعات کی شرح سب سے کم اٹلی ميں نوٹ کی گئی، جہاں 16 فيصد لڑکيوں کو ایسے تلخ تجربات کا سامنا رہا۔
روزنامہ جنگ
 

ہادیہ

محفلین
پاکستان اور انڈیا میں بھی سروے کرانا چاہیئے تھا
سروے نا بھی کروائیں تب بھی یہاں ابھی تک اس معاملے میں کوئی "شعور" نہیں ہے عوام میں۔ آن لائن ہراساں بھی کیا جاتا اور گلی محلوں بازاروں میں بھی(فقرے کسنا، پیچھا کرنا، غلط زبان استعمال کرنا) وغیرہ وغیرہ۔۔
 
پاکستان اور ہندوستان میں قانون نافد کرنے والے خود خواتین کو ہراساں کرنے کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔اکثر بیشتر میڈیا کی بدولت خواتین کو ہراساں کرنے اور دیگر سنگین جرائم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔جب سرکاری اہلکاروں کا یہ حال ہے تو پھر خواتین کہاں جا کر پناہ حاصل کریں۔
آج کے دور میں شاید عورت کی عزت وحرمت تماشا بن کر رہی گئی ہے،آٹھ ممالک کے سروے میں ہر چوتھی لڑکی اس مسئلے کا شکار بتائی گئی ہے مگر ہمارے ملک میں اکثر ترقی یافتہ شہروں اور دیہات ،گاؤں میں اسکول ،کالج اور یورنیورسٹی کی کثیر طالبات اور خواتین اساتذہ روزانہ اس ذہنی ہراساگی کا شکار ہوتی ہیں۔آفس جاب اور فیکٹری میں جاب کرنے والی خواتین تو صبح سے شام تک کام کے اوقات میں ہوس زدہ ،بے لگام نظروں کے نشانے پر ہوتی ہیں اور بہت سے مقامات پر بات نظروں سے آگے بھی چلی جاتی ہے اور خواتین ورکر کے لیے حالات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ ہم حوا کی ادلاد ہونے کے باوجود بھی خود حوا کی عزت اور حرمت کے پاسدار نہیں رہے۔اپنے نفس کی تسکین کی خاطر اس مکروہ اور حرام فعل کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
 
Top