ہر مال ہرچیز

"ہر مال ہرچیز"
ایک تپتی ہوئی دوپہر میں
ایک دیوار کے سائے میں
ایک اداس ، پریشان آدمی
تھوڑی تھوڑی دیر بعد پکارے
"ہر مال ، ہر چیز"
کون اسکی آواز سنے
کون اسکی بات سنے
ایسی تپتی دوپہر میں
"ہر مال ، ہر چیز"
"ہر چیز دس روپے میں
یہ پلاسٹک کی چوڑیاں
یہ مٹی کے برتن ،
یہ آنکھوں کا سرمہ
یہ کپڑوں کے بٹن
ہر مال ، ہرچیز"
ایسی تپتی دوپہر میں
یہ گاہک تلاش کرتی آنکھیں
تھک ہار کے لوٹ آتی ہیں
گلی کے ایک نکڑ سے
دوسرے نکڑ تک
کون اس کی آواز سنے
کون اس کی بات سنے
ایسی تپتی دوپہر میں
آواز مدھم ہوتی جاتی ہے

شاعر: محمد جمیل اختر
 
Top