سراج اورنگ آبادی ہر طرف یار کا تماشا ہے ۔۔۔ سراج اورنگ آبادی

ش

شہزاد احمد

مہمان
ہر طرف یار کا تماشا ہے
اس کے دیدار کا تماشا ہے

عشق اور عقل میں ہوئی ہے شرط
جیت اور ہار کا تماشا ہے

خلوتِ انتظار میں اوس کی
در و دیوار کا تماشا ہے

سینہء داغ داغ میں میرے
صحنِ گلزار کا تماشا ہے

ہے شکارِ کمندِ عشق سراج
اُس گلے ہار کا تماشا ہے
 
Top