سعود عثمانی ہر شخص وہاں بِکنے کو تیار لگے تھا ۔ سعود عثمانی

ہر شخص وہاں بِکنے کو تیار لگے تھا
وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا
ہر شام دبے پاؤں نکلتا تھا کہیں سے
وہ رنج کوئی سایہء دیوار لگے تھا
کیا طرفہ طلسمات تھا آئینہء دل بھی
اِس پار لگا تھا مگر اُس پار لگے تھا
اُس پیش میاں پیش نہ چلتی تھی کسو کی
انکار کروں تھا تو وہ اقرار لگے تھا
ویرانی کا مسکن ہے بلا شرکتِ غیرے
وہ قصر جہاں شاہ کا دربار لگے تھا
وہ عشق تھا آوازہء کہسار کی صورت
اک بار لگا دو تو کئی بار لگے تھا

سعود عثمانی
 
Top