ہر حرف ہے سرمستی، ہر بات ہے رندانہ ۔ امیر خسرو

فاتح

لائبریرین
ہر حرف ہے سرمستی، ہر بات ہے رندانہ
چھائی ہے مرے دل پر وہ نرگسِ مستانہ

وہ اشک بہے غم میں یہ جاں ہوئی غرقِ خوں
لبریز ہوا آخر یوں عمر کا پیمانہ

آ ڈال مرے دل میں زلفوں کے یہ پیچ و خم
آشفتہ سروں کا ہے آباد سیہ خانہ

واللہ کشش کیا تھی مستی بھری آنکھوں کی
یہ راہ چلا خسرو رندانہ و مستانہ
امیر خسرو​

یہی غزل مالنی اوستھی کی آواز میں جس کی دھن مظفر علی نے بنائی
 
وکی پیڈیا پہ امیر خسرو کے بارے میں جو آرٹیکل ہے اس میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ان سے منسوب غیر فارسی کلام بعد میں لکھ کے ان سے منسوب کیا گیا ہے اور حوالہ یوسف سعید کی کتاب کا دیا گیا ہے۔
کچھ صاحبان علم اس پہ روشنی ڈالیں گے؟
 
وکی پیڈیا پہ امیر خسرو کے بارے میں جو آرٹیکل ہے اس میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ان سے منسوب غیر فارسی کلام بعد میں لکھ کے ان سے منسوب کیا گیا ہے اور حوالہ یوسف سعید کی کتاب کا دیا گیا ہے۔
کچھ صاحبان علم اس پہ روشنی ڈالیں گے؟
یہ غزل تو واقعی ان کی نہیں لگ رہی۔ اتنی صاف اردو تو ولی کے زمانے میں بھی نہ تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ امیر خسرو کی فارسی غزل کا منظوم اردو ترجمہ ہے اور نہ جانے کس کا ہے۔

اصل غزل

ای جان، چو سخن گویم مستانه و رندانه
سرمستم و لایعقل زان نرگسِ مستانه

پرسد ز سرشک خون جانم ز غمت، آری
پر گشته مرا آخر در عشق تو پیمانه

ای دوست، سر زلفت در سینه من بگشا
زنجیر نه این در را، سرهاست درین خانه

با عشق دو چشمش چون رفتی ز پی کویش
خسرو، تو رهی رفتی رندانه و یارانه
 
Top