ہار جیت علی عباس حسینی

چھیدی پور کی اہیر ٹولی سے جو ملا ہوا آموں کا باغ ہے اس میں بڑی چہل پہل تھی۔ نوبیتا اہیر کے یہاں رام گڑھ سے جو برات آئی تھی وہ اسی میں اتاری گئی تھی۔ متعدد چولھے روشن تھے۔ بڑی بڑی کڑھائیاں چڑھی تھیں۔ پوریاں ”چھن رہی تھیں“ ترکاریاں بنائی جا رہی تھیں۔ براتیوں کے سامنے کیلے کے پتّے اور بڑے بڑے ”پتر“ رکھے تھے۔ ”گھراتی“ گرم گرم پوریاں اور ”بھاجی“ ہر ایک کے سامنے پرس رہے تھے۔ نوجوان برایتوں میں ”لاگ ڈانٹ تھی کہ دیکھیں کون سب سے زیادہ کھاتا ہے۔ جناتیوں نے بھی پوری پر پوری پیش کرنا شروع کر دی۔ کسی نے آدھ سیر، کسی نے تین پا، کسی نے سیر بھر پوریاں کھائیں مگر رام دلارے کا پیٹ تھا کہ تھا مٹکا، کسی طرح بھرتا ہی نہ تھا۔ وہ ایک ”بیٹھک“ میں ڈیڑھ سیر پوریاں کھا گیا۔ پھر جب ہارنے والے مقابل نے کہا کہ اس کی حد نہیں، پوریاں گھی میں تر تھیں۔ مزے کی تھیں، گرم گرم اور نرم نرم تھیں۔ نان کے کھا گئے۔ روٹی کھاتو البتہ جانیں مرد ہو، اس لیے لڑکی والوں سے دو سیر آٹا، آدھ سیر دال اور پچیس تیس اُپلے منگائے۔ دال ایک ہانڈی میں چڑھا دی۔ آٹا کیلے کے پتّے پر اپنے ہاتھ سے گوندھ ڈالا اور اُپلوں کو مربع صورت میں ایک کے اوپر ایک ”سریا“ کے رکھا اور ان میں آگ دکھا دی۔ جب اُپلے جل کے ”لہکتے“ ہوئے کوئلوں کے مانند ہو گئے تو اس نے گُندھے ہوئے آٹے کی دس بارہ ”بھوریاں“ بنائیں اور انھیں اس آگ میں ڈال کے ڈھک دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب دال اور بھوریاں تیار ہو گئیں تو وہ چار زانو بیٹھ کے نہایت اطمینان سے انھیں بھی اڑا گیا۔ مقابل نے کان پکڑ کر کہا ”بابا میں ہارا تم آدمی نہیں ”راکشش ہو“۔ نوجوان جناتیوں نے طعنہ دیا، بہت سا کھا لینا بڑی بات نہیں۔ ہمارے یہاں بھینسیں ناند کی ناند صاف کر جاتی ہیں، کوئی ”گن“ ہو تو بات ہے۔ رام دلارے ہنس کے ”برہا‘ گانے بیٹھ گیا۔ اب جناتیوں کی طرف سے باقاعدہ مقابلہ شروع کر دیا گیا۔ جب یہ ایک برہا گا چکتا، وہ جواباً دوسرا گاتے۔ جیسے ہی وہ خاموش ہوتے یہ تیسرا شروع کر دیتا۔ غرض یونہی سوال و جواب کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہا مگر ان میں اور رام دُلارے میں فرق یہ تھا کہ وہ سنی سنائی چیزیں گاتے تھے اور یہ خود فی البدیہہ کہتا اور گاتا جاتا تھا۔ کئی آدمیوں نے مل مل کے مقابلہ کیا مگر اپنے بل بوتے پر کھڑا ہونے والا دوسرے پر بھروسہ کرنے والوں کو ہمیشہ مار گراتا ہے۔ اس لیے رام دلارے کے آگے ایک کی بھی نہ چلی اور سب کے سب سیلی ہوئی آتش بازی کی طرح پُھس پُھسا کے رہ گئے۔ جنانیوں نے جب یہ دیکھا کہ برہےہ میں جیتنا محال ہے تو مقابلہ کا رُخ بدل دیا ”لڑکی“ چھیڑ دی۔ یہ بلا کی چیز ہے۔ اس کا نہ ”اورھے نہ چھورہے“ مہا بھارت اور رامائن کے زمانہ سے قصہ شروع ہوتا ہے اور انتہا ہوتی ہے آج کل کے زمانہ پر جتنے قصے اور فسانے دیہاتوں میں بھولے بھٹکے یاد رہ گئے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں اور سب کی تان امیروں کی تعریف پر ٹوٹتی ہے۔ اس کا سلسلہ ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔ اس لیے جب جناتیوں نے ”لُرکی“ چھیڑی تو رام دلارے مسکرانے لگا، وہ جانتا تھا کہ حریف نے برہے میں شکست کھانے بعد باقاعدہ ”پسپائی“ کی یہ صورت نکالی ہے۔ وہ خاموش تو ہو گیا مگر موقع موقع سے اپنے وار سے باز نہ نکالی۔ جہاں مقابل چُوکا یا کوئی ”کڑی“ بھول کے اٹکا اس نے فوراً تصحیح کر دی یا لُقمہ دے دیا۔ غرض لُرکی میں بھی جیت کا سہرا اسی کے سر رہا اور جناتی کئی محاذ پر شکست کھانے کی وجہ سے جھلّانے لگے۔ جب دولھا کے باپ نے دیکھا کہ جناتیوں کے تیور اچھے نہیں ہیں اور رنگ میں بھی بھنگ ہونے والا ہے تو اس نے اپنا ہفتاد سالہ تجربہ سے کام لیا اور اپنے ساتھی نوجوانوں کو سمجھایا کہ رات زیادہ آئی، تھوڑی تھوڑی دیر سو رہیں، پھر صبح مقابلہ ہوتا رہے گا، بارے سب نے اُس کا کہنا مان لیا۔ چلمنیں بھری گئیں۔ اکڑوں بیٹھ کے، ہاتھ کا چونگا بنا کے اور اس میں چلم رکھ کے سب نے دو دو چار چار لمبے لمبے ”کش مارے“ اور وہیں درختوں کے نیچے تاروں کی چھاں میں ”انگوچھا بچھا بچھا کر لمبی تانی۔ جاگا ہوا فتنہ یوں تھوڑی دیر کے لیے سو گیا۔ صبح سویرے ہی گاں میں شب کے مقابلے اور گاں والوں کی شکست کی خبر گرمیوں کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص چمار ہو یا پاسی، شیخ ہو یا برہمن پر جا ہو یا زمیندار، اپنی اپنی جگہ بل کھانے لگا۔ گاں کی عزت کا ہر ایک کو خیال تھا۔ یہ ناک کٹنے والی ہی بات تھی کہ چار کوس سے برات آئے اور چھیدی پور والوں کو ہر بات میں ہرا کے چلی جائے۔ رام دلارے کھانے میں بھی جیتے اور گانے میں بھی۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ جگ ہنسائی نہیں سہی جا سکتی۔ اسی لیے اس سوریا کو نیچا دکھانے اور اپنے یہاں کے اہیروں کا دل بڑھانے کے لیے ہر فرقے اور پیشے کا آدمی باغ میں آکے جمع ہو گیا۔ وہاں وقتی اکھاڑا کھودا گیا۔ جناتی اور براتی مل جل کے ورزش کرنے والے تھے۔ کوئی لنگوٹ کس رہا تھا، کوئی جانگیا پہن رہا تھا، کسی نے ایک معمولی سی چٹ سے ستر پوشی کر لی اور کسی نے لنگی ہی کا ”کاچھا“ باندھ لیا جو ان ڈنڈ، بیٹھک، سپاٹے میں مشغول ہوئے۔ لونڈے اپنی کسرت کے کرتب دکھانے لگے۔ ان میں سے کوئی چند قدم دوڑ کے آتا اور بڑی پھرتی سے ہاتھوں پر ٹیک لگا کے ایک ساتھ کئی کئی قلابازیاں اس صفائی سے کھاتا کہ سوائے ہتھیلیوں اور پنجوں کے کوئی حصہ جسم خاک سے مس نہ ہوتا۔ کوئی دوڑ کر زمین سے دو ڈیڑھ گز بلند اُچکتا اور ہوا میں گرہ لگاتا۔ کوٹھی کے سہارے بہت لمبا اور بلند پھاندتا۔ اور کوئی ”جٹھرا ایسے صحیح نشانے پر پھینکتا کہ درخت کی جوسی تپّی تاکتا وہی ٹوٹ کر زمین پر گرتی اور دوسروں پر ”ریپ“ تک نہ آتی۔ رام دلارے بھی انگڑائی لیتا ہوا اٹھا اور لنگوٹ باندھ کے اکھاڑے میں اتر گیا۔ پہلے اس نے شانوں اور گردن پر مٹی لگائی، پھر ڈنڈ کرنے شروع کیے جب تعداد دو ڈھائی سو سے زائد ہو چکی تو وہ بیٹھک اور سپاٹا لگانے لگا۔ جب ان کے اعداد بھی ڈنڈ کے قریب قریب پہنچ گئے تو وہ مگدروں کی اس جوڑی کی طرف متوجہ ہوا جسے چھیدی پور میں دو ہی ایک آدمی اٹھا سکتے تھے اور محض قوت کی آزمائش ہی کے لیے بنوائی گئی تھی۔ رام دلارے اس جوڑی کو آدھ گھنٹے تک ہلاتا رہا۔ پھر براتیوں کے اصرار سے اس نے دس بارہ نوجوانوں کو زور کرایا اور اکھاڑے میں قدم گاڑ کے مبارز طلب نگاہوں سے جناتیوں کو دیکھنے لگا۔ چھیدی پور والوں میں سے دو تین جوان جنھیں اپنے ورزشی جسم اور داں پیچ پر گھمنڈ تھا مقابلہ کے لیے اکھاڑے میں اترنے کا قصد رکھتے تھے۔ مگر رام دُلارے کی ورزش اور قوت کا حال دیکھ کر خاموش ہو رہے۔ رام دُلارے اور اس کے ساتھی جب اکھاڑے سے نکلے تو جناتیوں نے تازے تازے دودھ سے بھری ہوئی بالٹیاں اور ایک چھّوا بھر بھیگا ہوا چنالا کے رکھ دیا۔ ہر ایک چنا چاہنے لگا۔ رام دلارے بھی ٹہل ٹہل کے جسم سکھانا اور چنا کھاتا رہا۔ جب جسم خشک ہو گیا تو وہ ایک پوری بالٹی دودھ پی گیا اور کپڑے پہن کے ایک درخت کے تنے سے سہارا لگا کے زمین پر بیٹھ گیا اور لڑکوں کی اُچک پھاند دیکھنے لگا۔ مگر اہیروں کی بارات میں ان کا ہیرو نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ بات نہ لڑکے والوں کو بھاتی ہے نہ تماشائیوں کو۔ براتیوں کو یہ کد ہوتی ہے کہ جناتی کسی بات میں نہ جیتنے پائیں۔ جناتیوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کو کسی نہ کسی مقابلے میں ہرانا ہی چاہیے۔ اس لیے اس موقع پر بھی اب اصرار شروع ہوا کہ ناچ میں مقابلہ ہونا چاہیے۔ رام دلارے اس فن میں بھی براتیوں کی نظر میں یگانہ روزگار تھا۔ اب اس سے بہتر موقع اس ”کرتب“ کے دکھانے“ کا اور کیا ہو سکتا تھا۔ قریب قریب گاں بھر جمع تھا۔ ”سب اس بیر کے گُن دیکھنے آئے تھے“۔ بھلا یہ وقت خاموشی کا تھا۔ رام دلارے باوجود شدید اصرار کے پہلے تو ٹالتا رہا مگر جب اہیر ٹولی سے اہیرنوں نے اپنے اپنے گھروں کے سامنے کھڑے ہو کر طعنے دینا شروع کیے اور دو ایک ناچنے اور تھرکنے بھی لگیں تو اسے بھی جوش آ گیا اور وہ اٹھ کھڑا ہو گیا۔ پھر بھی ابتدا اس نے بھجن والے برہے سے کی:۔ رام رام کی بھجن کرو، رام پر دھرو دھیان محرم ہوئے وہی پہچانے ایسا دیس ہمارا ہے جہاں جہاں جانے بیرن ہو بیٹھے، کھجن پھجن سے نیاز ہے جان برت پوچھے نا کوئی پوچھت نا بہوارا ہے جلگ بوند گرے جل ہی ناں، نا میٹھا نا کھارا ہے سندر مدل بیچ نوبت باجے، مرلی بین ستارا ہے محرم ہوئے وہی پہچانے ایسا دیس ہمارا ہے رام رام کی بھجن کرو۔ رام پر دھرو دھیان مگر جوں جوں جوش بڑھتا گیا اور اہیرنوں کی طرف سے جواب ملتا گیا۔ وہ فی البدیہہ برہے موزوں کرتا گیا۔ ہر برہے کے بعد وہ اہیروں کا ناچ ناچتا تھا۔ کبھی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر محض سرد سینہ زور زور سے ہلاتا تھا۔ کبھی صرف کولہے اور کمر کو حرکت دیتا تھا اور کبھی ایک پاں کی ایڑی پر لٹو کی طرح گھومتا تھا۔ اہیرنیں بھی ہاتھ چمکا کے اور گالیاں دے دے کے ناچتی تھیں اور ہر برہے کا جواب گیت سے دیتی تھیں۔ مگر کیلے کے درختوں میں کھجور کی مضبوطی کہاں؟ جہاں سخت جھونکے آئے اور وہ دوہرے ہو گئے۔ جب اہیرنوں نے دیکھا کہ ان کے یہاں گیتوں اور گالیوں کا ذخیرہ ختم ہو چلا ہے، اور بیاہ کا سارا کام مقابلہ کی وجہ سے بند ہوا چاہتا ہے تو ان میں سے دو تین دوڑی ہوئی نولاکھی کے پاس پہنچیں۔ اس نے عمر کی صرف اٹھارہ بہاریں دیکھیں تھیں کہ اچانک گرفتار رخزاں ہو گئی جو ان شوہر گونا کراتے ہی سرگباش ہو گیا تھا۔ وہ اب بیوہ تھی، نہ اس کی مانگ میں سیند ور تھا، نہ ہاتھوں میں چوڑیاں۔ اور نہ بر میں رنگین ساری۔ اس کے لیے تو گھر کا ایک کونہ تھا، خاموشی تھی اور سفید کپڑے۔ وہ بیاہ برات میں کیا منہ لیکے جاتی۔ اسے گھر میں تو اُسی کی موجودگی ہی بدشگونی کے لیے کافی سمجھی جاتی۔ مگر سکھیاں بھلا اس وقت ان باتوں کو کیا دھیان میں لاتیں تھیں۔ گاں بھر کی ناک کٹ رہی تھی۔ رام دلارے ہر ایک بات میں جیتتا چلا جا رہا تھا۔ اہیر اس کے مقابلہ سے عاجز آ چکے تھے۔ اب کیا اہیر نیں بھی اپنے مردوں کی طرح کم ہمت تھیں کہ ہاتھ پاں ڈال کے بیٹھ رہتیں۔ نولاکھی ناچنے گانے کی ماہر تھی۔ جوان تھی، بال بچوں والی نہ تھی، شادی بیاہ کا اسے کام کاج نہ کرنا تھا۔ اس سے زیادہ اس مقابلہ کے لیے کوئی موزوں نہ ہو سکتا تھا۔ بس سب مل کے اسے کھینچ لائیں۔ نولاکھی کو پس و پیش صرف اس لیے تھا کہ اس کی بیوگی کے زمانہ میں اس کے پاس سے منچلے اہیروں کی طرح رام دُلارے کا بھی پیغام آ چکا تھا، وہ جانتی تھی کہ وہ کشتی اور پہلوانی کی طرح ناچنے گانے میں بھی مشاق ہے۔ تب سے وہ اس کا تذکرہ سُن سُن کر اس کی جھلک دیکھنے کے لیے بے چین بھی ہو رہی تھی۔ اس کا یہ بھی جی چاہتا تھا کہ رام دُلارے کو اس مقابلہ میں ہرا کے یہ دکھا دے کہ اس کا ”حوصلہ“ کرنا ہر ایک کا کام نہیں۔ مگر جتنی رام دلارے کے پاس پہنچنے اور اس سے مقابلہ کی خواہش بڑھتی اتنی ہی شرم بھی بڑھتی تھی وہ اسی بیس بیس میں تھی کہ سکھیوں نے زبردستی ساتھ چلنے پر مجبور کیا اور وہ دل ہی دل میں جھیپتی، شرماتی، نظریں نیچے کیے چلی۔ آموں کے باغ کے پاس پہنچ کر اس نے بار مقابل پر نظر ڈالی، دیکھا ایک جوان کھڑا ہے۔ گندمی رنگ، گول چہرہ، چمکتی ہوئی آنکھیں۔ کانوں میں موٹی موٹی مُرکیاں۔ گلے میں اشرفیوں کا کنٹھا، سانڈ کا سا سینہ، باگ کی سی کمر ساری سج دھج پہلوانوں کی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے دل میں بڑے زور سے چٹکی لی۔ یہ تو مرے ہوئے سوامی سے ملتی جلتی ہوئی صورت تھی۔ گھبرا کے جھجکی مگر سکھیوں نے ڈھکیل کر سب سے آگے کر دیا۔ براتیوں میں سے کئی ایک نولاکھی کو پہچانتے تھے۔ اس کے ناچ اور اس کے حسن کے اکثر گھائل تھے۔ اس لیے رام دلارے کے گرد بیٹھے ہوئے مجمع میں ایک اضطرابی لہر سی دوڑ گئی۔ رام دلارے نے اس کیفیت کو محسوس اور اور وہ ناچتے ناچتے ٹھٹک کے رُک گیا۔ اہیروں نے ایک دوسرے کے پہلوں میں کہنیاں ماریں اور بولے۔ اب مکابلہ برابر کا بھّوا، رام دلارے ایک ترپھ نولاکھی دوسری ترپھ! رام دلارے نے نولکھی کا نام سنتے ہی اسے بغور دیکھا۔ ”بادل ماں جیسے چندر ما چمکے“ ویسا ہی میلی ساری میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ اس پر آفت گﺅایسی بڑی بڑی مدھ بھری آنکھیں اور ہنس ایسی لمبی اور ٹیڑھی گردن۔ سڈول بھرا بھرا جسم، نئے پودے کی طرح نرم نرم ہاتھ پاں۔ پھُرتیلے بچھڑے کی ایسی بوٹی بوٹی پھڑکتی ہوئی۔ ”بڑی سُندر جان پڑی“ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے اس نے نولاکھی کو دیکھا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لبریز جام بھی چڑھا لیے۔ اس لیے کہ وہ اپنے میں عجیب طرح کی سرخوشی محسوس کر کے ایک پُرانا برہاناچ کے گانے لگا۔ ایک سمے میں ہری روپ بدل لاں، دھیلیں بید کا بھیس کھوری کا کھوری گھومے بیدوا، سہر ماں کو نو ہے بیماری؟ اپنے محل سے نکلن رادھکا، دکھلن بید صورت تمہاری آبیدا میری نگریا، پہچانوں میری ہماری نا دیکھوں توری سردی گرمی نا دیکھوں توری بیجاری تم ناری اس بھنگ بھئی ہو بگڑ گئی ہے سب ناری آنا بید امیری نگریا، کھدمت کر بے تمہاری آ ردیب ہم دھن دولت اور جاگہ جمیدا ری اور دیبا گو کلا کار جوا، بیٹھل کر بہا بہاری ناچا ہوں تو ردھن دولت، نالیبوں تور جگہ جمیداری ہم چاہیں رسوں کا کلیا، ہم ہی پرس توں ناری آخری ٹکڑا ”ہم پرس توں ناری“ رام دلارے نے آگے بڑھ کے اور نولاکھی کی طرف اشارہ کر کے اس طرح کو لہے کو حرکت دے کے گایا کہ سارا مجمع ہنستے ہنستے بے تاب ہو گیا۔ نولاکھی بھی دل ہی میں کٹ گئی مگر حریف کے پہلے ہی وار میں جھجک کر پیچھے ہٹ جانا شکست ماننے کا پیش خیمہ تھا اور وہ اس لیے بے نیاز نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اس طرح کے مقابلوں میں ”ور“ ہی رہتی تھی اس لیے قبل اس کے کہ رام دلارے کچھ اور کہہ سکے اس لے برہے کی آخری کڑی حد درجہ تحقیر آمیز لہجے میں ہاتھ چمکا کے گادی:۔ ”نیا پر چڑھ کے گول کاٹے لا کنھیا آکھر جیتا کا توں اہیر“ ناگن نے سپیرے کا پہلا دار خالی ہی نہیں دیا بلکہ چوٹ کر گئی! گھنٹوں مقابلہ ہوتا رہا۔ دونوں نے اس قدر برہے اور گیت گائے کہ گلے پڑ گئے۔ اب خاموش ناچ کا جواب ناچ سے دیا جا رہا تھا۔ رام دلارے نے کُرتہ اتار کر پھینک دیا تھا۔ ”دھوتی کاکا چھا“ کس لیا تھا۔ نولاکھی نے ساری کا آنچل کمر سے لپیٹ لیا تھا اور ”پھپتی“ لنگی کی طرح یوں کھینچ کر پیچھے کھونس لی تھی کہ گوری گوری پنڈلیاں صاف دکھائی دیتی تھیں۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں گلاب کی پتیوں پر شبنم کے قطروں کی طرح جھلک رہی تھیں۔ آنکھیں خون سے بھری کٹوریاں ہو رہی تھیں۔ ہونٹ بالکل بنقشی تھے، مگر مسکراہٹ سے دانتوں کی بتیسی بار بار چمک اٹھتی تھی اور کمر اور کولے کی حرکت برابر مشین کی طرح جاری تھی۔ رام دلارے کو زیادہ تکان نہ تھا، وہ مرد تھا، پہلوان تھا، ابن بیاہا تھا وہ دس بارہ گھنٹے ایک طرح ناچ سکتا تھا۔ مگر مقابل کوئی مرد نہ تھا۔ ایک نازک اندام، سیمتن عورت تھی۔ پھر بھی وہ گھنٹوں سے کھڑی برابر کا مقابلہ کر رہی تھی۔ ہر برہے کے جواب میں کوئی برہا یا گیت گاتی۔ جب تک گلا نہ پڑا تھا خاموش نہ ہوئی تھی۔ ناچتی بھی اس خوبی اور دل فریبی سے تھی کہ جسم کی ہر حرکت اور اعضا کی ایک ایک جنبش بوڑھے ”پھونس“ اہیروں کے دل و دماغ میں آگ لگا دیتی تھی۔ اس کا استقلال یہ بتاتا تھا کہ وہ بات پر جان دے دی گی مگر ہار نہ مانے گی۔ انداز کہتا تھا کہ تھک کے چور ہو گئی ہے مگر مسکراہٹ بتاتی تھی کہ جب تک دم میں دم ہے ناچے جائے گی۔ رام دلارے نادیدہ عاشق تھا۔ پیغام بھیج چکا تھا مگر آج باہمت مقابلہ نے اس کے دل میں وہ جذبہ ایثار پیدا کر دیا جو وفورِ محبت ہی کے بعد ممکن ہے۔ اس نے دفعتاً انگڑائی لی اور مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ نولاکھی ناچتے ناچتے گھبرا کے بُھٹکی پھر تن کے کھڑی ہو گئی۔ رام دلارے نے اس کے قدموں کی طرف ہاتھ لے جا کے کہا:۔ ”دیوی جی! ہم ہار گئی لیں۔ تُہارا ایس ناچ اوہ دیس ماں کیہو کانا آت ”جناتیوں نے اس پر خوب خوب تالیاں بجائیں اور فقرے کسے۔ اہیرنوں نے گالیاں دے دے کر ”ہارگو! ہارگوا!“ کا شور مچایا۔ مگر نولاکھی نے رام دلارے پر ایک جھجلتی ہوئی نظر ڈالی اور سر جھکائے چپکی اپنے جھونپڑے میں چلی گئی۔ نگاہیں کہتی تھیں کہ رام دلارے کی شکست مان لینے نے جیت کوہار۔ بنا دیا اورہار کو جیت! سپیرے نے ناگن کو جڑی ستھنا کر مدہوش کر دیا تھا اب وہ اس کے قابو میں تھی۔ اس واقعہ کے پندرھویں دن رام دلارے چھیدی پور پھر آیا۔ دن بھر اہیر ٹولی میں رہا۔ شام کو جب رام نگر واپس جانے لگا تو نولاکھی سرخ چادر اوڑھے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اور سکھیاں بابل گا رہی تھیں۔ مگر رام دلارے کا انداز ہی نرالا تھا۔ وہ بائیں کاندھے پر لاٹھی رکھے اسے الٹے ہاتھ سے سنبھالے تھا اورداہنا ہاتھ کبھی کان پر کبھی کبھی رکھتا اور مستانہ وار ناچتا اور گاتا جاتا تھا“ رام رام کی بھجن کرو رام، پر دھرو دھیان محرم ہوئے وہی پہچانے، ایسا جوڑ ہمارا ہے جہاں جہاں جانے اپنی ہو بیٹھے ایسا موہن پیارا ہے آنکھیں اوہِ کی کھنجر ایسی، چلیا رہ تی دھارا ہے دیکھو نیچو ایہر دیکھو، ای ہی ہمرا پیارا ہے اسی سے ہار کے اوہ کے جیتا یہی گھاٹ کٹارا ہے ایسی گھیتا نا کوئی جانے، جانے رام دلارا ہے محرم وہی پہچانے، ایسا جوڑ ہمارا ہے رام رام کی بھجن کرو، رام پر دھرو دھیان وہ ہر کڑی پر رُک کے کھڑا ہو جاتا۔ کولہے اور کمر کو حرکت دیتا پھرتا ناچتا ہوا نولاکھی کے گرد گھومتا اور آگے بڑھتا۔ نولاکھی شرما تی، لجاتی، بدن چراتی، مگر گھونگھٹ سے ”تیر نیم کش“ مارنے سے باز نہ آتی تھی۔ ہاں ہاں، سپیرے کے سنتروں نے تاگن کو ایسا رام کیا تھا کہ وہ اب اس کے گلے کا ہار تھی.
 
اس خوبصورت کہانی کی بازگشت جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاشِ بہاراں میں یوں سنائی دی:

میرے سینے میں بہت زوروں کا درد ہورہا تھا اور پھر بارش میں شرابور میں نے جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو گھر میں روشنیاں ہورہی تھیں۔ اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔ میں حیران تھا اور ماتا جی نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا " آج موہنا کا سانس اکھڑ رہا ہے۔ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں"۔ میں سر جھکائے اپنے کمرے میں چلا گیا، انہیں یہ بھی پوچھنے کا وقت نہ ملا کہ میں کہاں سے آیا تھا۔ اس رات موہنا مرگئی۔ میرے سینے میں درد کے ساتھ ساتھ کنول کماری ٹھاکر کی یاد تھی اور موہنا مرگئی۔ جانے کب سے ہمارے گھر میں تھی۔ پھر جب میں نے آنکھ کھولی ہے اسے رسوئی گھر میں ہی دیکھا ہے۔ اوپر کا کام کرنے کے لیے ایک اور نوکر تھا۔ موہنا سارا دن رسوئی گھر میں بیٹھی چیخ چیخ کر اسے بتاتی رہتی، اسے آوازیں دیتی رہتی۔ ہوش سنبھالنے کے ساتھ مجھے اس کی آوازیں کبھی کبھار بری لگتیں۔ پھر اس کے بعد اور لوگوں کی طرح میں بھی اس سے مانوس ہوگیا۔ سارے گھر میں صبح کی روشنی کے ساتھ سب سے پہلے موہنا کی آواز سنائی دیتی۔ اور پھر دن بھر سے رات بھیگنے تک وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد زور سے بولتی۔ جو بھی نوکر کام کرنے کے لیے آتا ، موہنا کی اس چیخ و پکار سے تنگ آکر تھوڑے دنوں میں چل دیتا۔ پھر ماتا جی نے کبھی موہنا کو کچھ نہیں کہا ۔ انہوں نے کبھی اسے ڈانٹا نہیں۔اصل میں ماتا جی اور موہنا کا رشتہ کچھ بہنوں کا رشتہ تھا۔ دونوں میں نوکر اور مالک کی جگہ ایک اپنائیت سی پیدا ہوگئی تھی۔ رسوئی میں حکم موہنا کا چلتا، جو جی چاہتا پکاتی اور جس طرح چاہے پکاتی۔ ماتا جی کو مالکن کی بجائے بہن جی کہتی۔

دونوں ایک ہی گاؤں کی تھیں۔ ایک ہی گاؤں میں دونوں کا میکہ تھا اور پھر بیاہ کر بھی ایک ہی گاؤں میں آئیں۔ موہنا اہیرن تھی۔ اس کی آنکھوں میں بڑھاپے تک، مرتے سمے تک جو چمک رہی ہے وہ میں نے صرف کنول کماری ٹھاکر کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔ ماں کی آنکھوں میں شفقت کے ساتھ میں نے کبھی اور کچھ دیکھا ہی نہیں۔پھر موہنا تو موہنا تھی اور رام دلارے کبھی کبھار اب بھی اسے چھیڑ دیتا۔ چلو موہنا برہا گائیں۔ اور موہناکہتی " بس تمہیں تو سوائے بیتے دنوں کی یاد کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں اب ہمارے کوئی برہا گانے کے دن ہیں۔ تم کوئی کام کی بات کیا کرو اور رام دُلارے کہتا " موہنا!" پھر کہتا " موہنا پھر کیا ہوا اگر ہم بوڑھے ہیں۔ دل تو تمہارا بھی ابھی جوان ہے۔ دیکھا کیا لہک لہک کر دنیا دیدی کی شادی میں گارہی تھیں۔ رام سے، تم نے تو پرانے دنوں کی یاد تازہ کردی تھی۔"

رام دلارےبھی ایک زندہ دل انسان تھا۔ کنوئیں سے پانی نکالتے ہوئے گاتا رہتا۔ اس کی ٹھاٹ دار آواز گونجتی ہوئی جب ہمیں اپنے بازوؤں میں لٹکاکر چک پھیریاں دیتا تومانو لگتا جیسے آنکھوں میں تارے گھوم گئے ہوں۔ آج بھی سب سے زیادہ اس کے گیت یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے اس نے موہنا کے ہاتھ کا پکا کبھی نہیں کھایا۔ کنویں کی پکی منڈیر پر آٹا گوندھتا اور وہیں اینٹوں کے چولھے پر روٹی پکالیتا۔ بڑی بڑی چار روٹیاں۔ ہم اس کے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے۔

(جاری)
 
اس خوبصورت کہانی کی بازگشت جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاشِ بہاراں میں یوں سنائی دی:

میرے سینے میں بہت زوروں کا درد ہورہا تھا اور پھر بارش میں شرابور میں نے جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو گھر میں روشنیاں ہورہی تھیں۔ اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔ میں حیران تھا اور ماتا جی نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا " آج موہنا کا سانس اکھڑ رہا ہے۔ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں"۔ میں سر جھکائے اپنے کمرے میں چلا گیا، انہیں یہ بھی پوچھنے کا وقت نہ ملا کہ میں کہاں سے آیا تھا۔ اس رات موہنا مرگئی۔ میرے سینے میں درد کے ساتھ ساتھ کنول کماری ٹھاکر کی یاد تھی اور موہنا مرگئی۔ جانے کب سے ہمارے گھر میں تھی۔ پھر جب میں نے آنکھ کھولی ہے اسے رسوئی گھر میں ہی دیکھا ہے۔ اوپر کا کام کرنے کے لیے ایک اور نوکر تھا۔ موہنا سارا دن رسوئی گھر میں بیٹھی چیخ چیخ کر اسے بتاتی رہتی، اسے آوازیں دیتی رہتی۔ ہوش سنبھالنے کے ساتھ مجھے اس کی آوازیں کبھی کبھار بری لگتیں۔ پھر اس کے بعد اور لوگوں کی طرح میں بھی اس سے مانوس ہوگیا۔ سارے گھر میں صبح کی روشنی کے ساتھ سب سے پہلے موہنا کی آواز سنائی دیتی۔ اور پھر دن بھر سے رات بھیگنے تک وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد زور سے بولتی۔ جو بھی نوکر کام کرنے کے لیے آتا ، موہنا کی اس چیخ و پکار سے تنگ آکر تھوڑے دنوں میں چل دیتا۔ پھر ماتا جی نے کبھی موہنا کو کچھ نہیں کہا ۔ انہوں نے کبھی اسے ڈانٹا نہیں۔اصل میں ماتا جی اور موہنا کا رشتہ کچھ بہنوں کا رشتہ تھا۔ دونوں میں نوکر اور مالک کی جگہ ایک اپنائیت سی پیدا ہوگئی تھی۔ رسوئی میں حکم موہنا کا چلتا، جو جی چاہتا پکاتی اور جس طرح چاہے پکاتی۔ ماتا جی کو مالکن کی بجائے بہن جی کہتی۔

دونوں ایک ہی گاؤں کی تھیں۔ ایک ہی گاؤں میں دونوں کا میکہ تھا اور پھر بیاہ کر بھی ایک ہی گاؤں میں آئیں۔ موہنا اہیرن تھی۔ اس کی آنکھوں میں بڑھاپے تک، مرتے سمے تک جو چمک رہی ہے وہ میں نے صرف کنول کماری ٹھاکر کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔ ماں کی آنکھوں میں شفقت کے ساتھ میں نے کبھی اور کچھ دیکھا ہی نہیں۔پھر موہنا تو موہنا تھی اور رام دلارے کبھی کبھار اب بھی اسے چھیڑ دیتا۔ چلو موہنا برہا گائیں۔ اور موہناکہتی " بس تمہیں تو سوائے بیتے دنوں کی یاد کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں اب ہمارے کوئی برہا گانے کے دن ہیں۔ تم کوئی کام کی بات کیا کرو اور رام دُلارے کہتا " موہنا!" پھر کہتا " موہنا پھر کیا ہوا اگر ہم بوڑھے ہیں۔ دل تو تمہارا بھی ابھی جوان ہے۔ دیکھا کیا لہک لہک کر دنیا دیدی کی شادی میں گارہی تھیں۔ رام سے، تم نے تو پرانے دنوں کی یاد تازہ کردی تھی۔"

رام دلارےبھی ایک زندہ دل انسان تھا۔ کنوئیں سے پانی نکالتے ہوئے گاتا رہتا۔ اس کی ٹھاٹ دار آواز گونجتی ہوئی جب ہمیں اپنے بازوؤں میں لٹکاکر چک پھیریاں دیتا تومانو لگتا جیسے آنکھوں میں تارے گھوم گئے ہوں۔ آج بھی سب سے زیادہ اس کے گیت یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے اس نے موہنا کے ہاتھ کا پکا کبھی نہیں کھایا۔ کنویں کی پکی منڈیر پر آٹا گوندھتا اور وہیں اینٹوں کے چولھے پر روٹی پکالیتا۔ بڑی بڑی چار روٹیاں۔ ہم اس کے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے۔

(جاری)
زبردست انتخاب
سلامت رہیں :)
 
مجھے یاد ہے جس دن میرا نتیجہ نکلا ، رام دلارے بہت خوش تھا ۔ سارے میں گاتا اور ناچتا پھر رہا تھا۔ موہنا نے کئی بار کہا بھی "اب تمہارے ناچنے کے دن ہیں کیا، اب تم نچلے بھی بیٹھا کرو " مگر اس کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ وہ بڑا خوش خوش دعوت میں مشغول تھا اور تب میں نے پہلی بار زندگی میں رام دادا کا ناچ دیکھا جس کو لوگ اہیر ناچ کہتے ہیں۔ وہ بجلی کی سی تیزی ، وہ چلت پھرت میں نے اودے شنکر کے ناچ میں بھی نہیں دیکھی۔ رام دلارے اگر مہذب سوسائیٹی کا رکن ہوتا تو اس کے فن کو آرٹ کا درجہ دے دیا جاتا مگر فن بھی غربت اور امارت کے اصولوں پر چلتا ہے۔ دنیا کے راستے ایک دوسرے سے کتنے قریب اور پھر کتنی دور ہیں۔

دعوت کے بعد میں نے کہا " رام دادا تم بہت اچھا ناچتے ہو، مجھے بھی سکھادو۔"

بولا" چھوٹے بابو! یہ تمہارے کام کا ناچ نہیں۔ تمہیں دنیا میں اور بہت کچھ کرنا ہے۔ دنیا میں اور کتنی چیزیں ہیں جن کو سیکھ کر تم بڑے آدمی بن سکتے ہو۔ میں اہیر ہوں اور اہیر دھرتی کابیٹا ہے۔ دھرتی کے بیٹوں کی چیزیں تمہارے کس کام کی۔

میں نے کہا " رام دادا دھرتی تو کتنی پوتّر ہے ۔ وہ تو ماں ہے۔ تم جس ماں کے سپوت ہو۔ میں بھی اسی زمین کا انسان ہوں اور دھرتی کے بیٹے دیوتاؤں کا ناچ سیکھتے ہیں کیا؟ " اور پھر میں نے چپکے چپکے رام دادا سے خالی وقت میں اہیر ناچ سیکھنا شروع کیا۔

میں نے پوچھا " رام دادا! تم نے اتنا اچھا ناچ کتنے عرصہ میں سیکھا تھا۔"

بولا " جب سے میں بڑا ہوا میں نے اپنے بھائی بندوں کو ناچتے ہی دیکھا تھا۔ پھر سب سے اچھا تو موہنا ناچتی ہے۔
(جاری)
 
Top