قتیل شفائی ہاتھ دیا اس نے مرے ہاتھ میں ۔ قتیل شفائی

فاتح

لائبریرین
شاید دس بارہ برس قبل منی بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کی ایک غزل سنی تھی۔۔۔ آج شام کو راہ چلتے اچانک اس کے اشعار ذہن میں گھومنے لگے اور ساتھ ہی ہمیں مزمل شیخ بسمل کا یہ سوال بھی یاد آ گیا:
بحر درکار:::::
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا
محمد وارث
فاتح
قتیل شفائی کی یہ غزل بھی اسی بحر میں ہے جس میں درج بالا شعر۔
ہاتھ دیا اس نے مرے ہات میں​
میں تو ولی بن گیا اک رات میں​
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام​
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں​
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی​
درد مہکنے لگا جذبات میں​
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں​
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں​
ربط بڑھایا نہ قتیلؔ اس لیے​
فرق تھا دونوں کے خیالات میں​
قتیل شفائی​
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ " قتیل " غزل ہے محترم قتیل شفائی کی
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں
بہت شکریہ فاتح بھائی
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بحر واقعی اب کم کم نظر آتی ہے، میر کی ایک خوبصورت غزل ہے اس بحر میں

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہیے
 
شاید دس بارہ برس قبل منی بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کی ایک غزل سنی تھی۔۔۔ آج شام کو راہ چلتے اچانک اس کے اشعار ذہن میں گھومنے لگے اور ساتھ ہی ہمیں مزمل شیخ بسمل کا یہ سوال بھی یاد آ گیا:

قتیل شفائی کی یہ غزل بھی اسی بحر میں ہے جس میں درج بالا شعر۔
ہاتھ دیا اس نے مرے ہات میں​
میں تو ولی بن گیا اک رات میں​
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام​
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں​
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی​
درد مہکنے لگا جذبات میں​
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں​
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں​
ربط بڑھایا نہ قتیلؔ اس لیے​
فرق تھا دونوں کے خیالات میں​
قتیل شفائی​

واہ واہ واہ!! بہت خوب صاحب
 

باباجی

محفلین
واہ واہ بہت ہی خوب کلام
ہاتھ دیا اس نے مرے ہات میں​
میں تو ولی بن گیا اک رات میں​
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام​
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں​
 

فاتح

لائبریرین
یہ بحر واقعی اب کم کم نظر آتی ہے، میر کی ایک خوبصورت غزل ہے اس بحر میں

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہیے
واہ واہ
اس بحر کا کم استعمال ہی اسے یہاں ارسال کرنے کا باعث بنا
 
Top