فراز ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں

سونیا

معطل
ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تووہ ، جسکی جزا کوئی نہیں

آ کہ اب تسلیم کرلیں تو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں

وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
قافلے گذرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں

خود کو یوں‌ محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں

کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فراز
یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ ۔ یا کوئی نہیں

فراز
 
Top