ھمارے فکری انتشار کا سبب کیا ہے معروضی تجزیہ درکار ہے

ھمارے فکری انتشار کا سبب کیا ہے معروضی تجزیہ درکار ہے
مکالمہ شروع کرنے کا مقصد فکری انتشار مین مزید الجھاؤ نھین بلکہ انتہائی ٹھنڈےذہن سے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی عملی راہ اختیار کی جائے ورنہ خاموش رہا جائے شاید ابھی فکری بالیدگی کا وقت ہماری قوم پر نہین آیا ہے
اے اللہ ہمین حق کی راہ چلا اسے سمجھنے قبول کرنے اور عمل مین استقامت ذریعہ بنا
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
 
بھائی@muhammed javed mengranid موضوع تو واقعی بہت عمدہ ہے ۔پہلے آپ مبارکباد قبول کریں اتنا اچھا موضوع شروع کرنے کے لئے ۔انشائ اللہ جلد ہی اس پر کچھ لکھوں گا ۔:)
 
موضوع عمدہ تو ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ بیحد وسیع بھی۔ آپ پہلے یہ وضاحت کردیجئے کہ کس میدان میں فکری انتشار کی بات آپ کر رہے ہیں؟ سیاسی؟ معاشی؟مذہبی،؟معاشرتی؟ ثقافتی؟۔۔۔وغیرہ وغیرہ :)
 
السلام علیکم شکریہ آپ نے میرے سوال کو قابل جواب خیال کیا
مین اپنے سوال کے جواب کے لئے آپ سے ہی گذارش کرون گا کہ برائے مہربانی اپنے قیمتی تجزیے سے اس سوال کے جواب کا رخ آپ ہی متعین کرین
شاید آپ کے چند الفاظ پیاسون کی سیرابی کے لئے کسی سبیل کا سبب ہو جائین
اللہ تعالی ہماری رہنمائی کرے آمین
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کس میدان میں فکری انتشار کی بات آپ کر رہے ہیں؟ سیاسی؟ معاشی؟مذہبی،؟معاشرتی؟ ثقافتی؟۔۔۔ وغیرہ وغیرہ​
عالی جناب محمد علم اللہ اصلاحی صاحب! ابھی تو مباحثہ یا مذاکرہ شروع بھی نہیں ہوا اور آپ اسے کسی ایک میدان میں محدود کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ما شا ء اللہ اردو محفل پر ہر میدان کے لوگ موجود ہیں۔ ہم سبھی سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے علم،تجربہ، مطالعہ،خیال، الغرض اپنی اپنی بساط کے مطابق جواب دے گا، اور بالآخر اس مباحثہ کی سمت اپنے آپ متعین ہو جائے گی۔ محمد جاوید صاحب خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔ جناب شکریہ
 
اگر general بات ہی کرنی ہے تو اس سلسلے میں صرف یہی عرض کروں گا کہ ہمارے فکری انتشار کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنی درست ترجیحات متعین نہیں کیں۔ ترجیحات بدلتی رہتی ہیں، چنانچہ فکر و عمل میں بھی انتشار رونما ہوتا ہے۔ خود شناسی یا خدا شناسی یا کامیابی کے سفر کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ انسان اپنی ترجیحات کا تعین کرلے۔ :)
 
ہرطرف سے ”انا ولاغیری“ (میں میں اور تو تو) یعنی انتشار ہی انتشار ، فرقے، جتھے ، زبان، وطنیت کے نعرے بلند ہورہے‘ اس سے بڑھ کر کسی قوم کے لئے اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس قوم پر قہرِ الٰہی اور غضب خداوندی ٹوٹ پڑا ہے‘ ہم ہزار چیخیں چلائیں‘ سرپیٹیں‘ واویلا کرئیں‘ لاکھ جتن کرئیں مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عذاب کو اٹھا لینے کا فیصلہ نہیں ہوگا‘ہم کبھی گردابِ بلا سے نہیں نکل سکتی‘ ہم اس بھول میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کئے بغیر محض ہماری تقریروں سے‘ ہمارے نعروں سے‘ ہمارے اخباروں سے‘ ہمارے رسالوں سے‘ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈے سے‘ ہمارے عوامی شعور سے‘ ہمارے قومی تدبر سے فضا بدل جائے گی‘ ہوا کا رخ پلٹ جائے گا‘ طوفان کا دھارا مڑ جائے گا‘ نفرت کا دھواں چھٹ جائے گا‘ انتشار وافتراق کا آتش فشاں سرد ہوجائے گا اور ہم صرف اپنی ناکارہ تدبیروں سے حالات پر قابو پالینے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ اگر ہماری خوش فہمیوں سے حالات بدل جاتے تو اب تک کبھی کے بدل گئے ہوتے‘ مگر حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے:
”ان اللہ لا یہدی القوم الفاسقین“
(بے شک اللہ تعالیٰ راہ نہیں سمجھاتا بدکار قوم کو) جب تک معاشرے پر فسق وبدکاری کا عفریت مسلط ہے‘ ہمیں کبھی فلاح وبہبود کا راستہ نہیں مل سکتا‘ بلکہ جو تدبیر ہوگی الٹی ہوگی‘ اس قہرِ الٰہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم توبہ وانابت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے جو معاملہ بگاڑ لیا ہے اس کی اصلاح کریں۔۔۔
توبہ‘ توبہ‘ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم تیرے ہی بندے ہیں‘ تجھ ہی پر ایمان رکھتے ہیں اورتجھ ہی سے مغفرت چاہتے ہیں:”ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا‘ ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا ما لاطاقة لنا بہ‘ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین“۔
 

نایاب

لائبریرین
ھمارے فکری انتشار کا سبب کیا ہے معروضی تجزیہ درکار ہے
مکالمہ شروع کرنے کا مقصد فکری انتشار مین مزید الجھاؤ نھین بلکہ انتہائی ٹھنڈےذہن سے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی عملی راہ اختیار کی جائے ورنہ خاموش رہا جائے شاید ابھی فکری بالیدگی کا وقت ہماری قوم پر نہین آیا ہے
اے اللہ ہمین حق کی راہ چلا اسے سمجھنے قبول کرنے اور عمل مین استقامت ذریعہ بنا
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے آج کے فکری انتشار کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ " آج کا مفکر اپنی فکر کو عالمگیر انسانیت کی بجائے " انفرادی مذہبی معاشی سیاسی معاشرتی اور ذاتی " دائروں پر مرکوز رکھتا ہے ۔ وہ اپنی فکر سے اپنے منتخب دائرے کو تقویت پہنچاتا ہے ۔ اور یہی سوچ و فکر کہ میری سوچ و فکر درست ہے دوسروں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیئے اور وہ بھی میری فکر پر عمل کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح " افکار " آپس میں دست و گریباں ہوتے فکری انتشار کا سبب بنتے ہیں ۔
آج کے مفکروں نے ماضی کے گزرے مفکروں کی " فکر " کو اپنی اپنی محدود دائرہ فکر کی کسوٹی پر پرکھتے صرف اپنی فکر کو تقویت دینے والی فکر کو چھانٹا ہے ۔ ہر کوئی اپنی فکر کو گزر چکے " مفکروں " کی فکر کا پانی پلاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انتشار پھیلاتا ہے ۔
جب تک مفکر محدود دائروں میں اپنی فکر کو مقید رکھے گا یہ فکری انتشار بکھرتا رہے گا ۔
 
عالی جناب محمد علم اللہ اصلاحی صاحب! ابھی تو مباحثہ یا مذاکرہ شروع بھی نہیں ہوا اور آپ اسے کسی ایک میدان میں محدود کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ما شا ء اللہ اردو محفل پر ہر میدان کے لوگ موجود ہیں۔ ہم سبھی سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے علم،تجربہ، مطالعہ،خیال، الغرض اپنی اپنی بساط کے مطابق جواب دے گا، اور بالآخر اس مباحثہ کی سمت اپنے آپ متعین ہو جائے گی۔ محمد جاوید صاحب خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔ جناب شکریہ
بھائی یہ بات میں نے کب کہی ۔میں نے کب ایک میدان میں محدود کر دینے کی بات کی ؟؟ ابھی تو اس پر میں نے کچھ کہا ہی نہیں ۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بھائی یہ بات میں نے کب کہی ۔میں نے کب ایک میدان میں محدود کر دینے کی بات کی ؟؟ ابھی تو اس پر میں نے کچھ کہا ہی نہیں ۔​
عالی جناب محمد علم اللہ اصلاحی صاحب!​
ارے صاحب !یہ بات تو محمود احمد غزنوی صاحب نے کہی تھی۔

معافی مانگتا نہیں،چاہتا ہوں! کیونکہ بقول میر تقی میرؔ مانگی تو بھیک جاتی ہے۔
اُردو والے معافی مانگتے نہیں، مُعافی چاہتے ہیں۔ لہٰذا ایک بار پھر آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔
 
ہرطرف سے ”انا ولاغیری“ (میں میں اور تو تو) یعنی انتشار ہی انتشار ، فرقے، جتھے ، زبان، وطنیت کے نعرے بلند ہورہے‘ اس سے بڑھ کر کسی قوم کے لئے اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس قوم پر قہرِ الٰہی اور غضب خداوندی ٹوٹ پڑا ہے‘ ہم ہزار چیخیں چلائیں‘ سرپیٹیں‘ واویلا کرئیں‘ لاکھ جتن کرئیں مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عذاب کو اٹھا لینے کا فیصلہ نہیں ہوگا‘ہم کبھی گردابِ بلا سے نہیں نکل سکتی‘ ہم اس بھول میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کئے بغیر محض ہماری تقریروں سے‘ ہمارے نعروں سے‘ ہمارے اخباروں سے‘ ہمارے رسالوں سے‘ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈے سے‘ ہمارے عوامی شعور سے‘ ہمارے قومی تدبر سے فضا بدل جائے گی‘ ہوا کا رخ پلٹ جائے گا‘ طوفان کا دھارا مڑ جائے گا‘ نفرت کا دھواں چھٹ جائے گا‘ انتشار وافتراق کا آتش فشاں سرد ہوجائے گا اور ہم صرف اپنی ناکارہ تدبیروں سے حالات پر قابو پالینے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ اگر ہماری خوش فہمیوں سے حالات بدل جاتے تو اب تک کبھی کے بدل گئے ہوتے‘ مگر حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے:
”ان اللہ لا یہدی القوم الفاسقین“
(بے شک اللہ تعالیٰ راہ نہیں سمجھاتا بدکار قوم کو) جب تک معاشرے پر فسق وبدکاری کا عفریت مسلط ہے‘ ہمیں کبھی فلاح وبہبود کا راستہ نہیں مل سکتا‘ بلکہ جو تدبیر ہوگی الٹی ہوگی‘ اس قہرِ الٰہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم توبہ وانابت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے جو معاملہ بگاڑ لیا ہے اس کی اصلاح کریں۔۔۔
توبہ‘ توبہ‘ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم تیرے ہی بندے ہیں‘ تجھ ہی پر ایمان رکھتے ہیں اورتجھ ہی سے مغفرت چاہتے ہیں:”ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا‘ ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا ما لاطاقة لنا بہ‘ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین“۔
انتہائی ٹھنڈےذہن سے
ہرطرف سے ”انا ولاغیری“ (میں میں اور تو تو) یعنی انتشار ہی انتشار ، فرقے، جتھے ، زبان، وطنیت کے نعرے بلند ہورہے‘ اس سے بڑھ کر کسی قوم کے لئے اور کیا سزا ہوسکتی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس قوم پر قہرِ الٰہی اور غضب خداوندی ٹوٹ پڑا ہے‘ ہم ہزار چیخیں چلائیں‘ سرپیٹیں‘ واویلا کرئیں‘ لاکھ جتن کرئیں مگر جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عذاب کو اٹھا لینے کا فیصلہ نہیں ہوگا‘ہم کبھی گردابِ بلا سے نہیں نکل سکتی‘ ہم اس بھول میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کئے بغیر محض ہماری تقریروں سے‘ ہمارے نعروں سے‘ ہمارے اخباروں سے‘ ہمارے رسالوں سے‘ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈے سے‘ ہمارے عوامی شعور سے‘ ہمارے قومی تدبر سے فضا بدل جائے گی‘ ہوا کا رخ پلٹ جائے گا‘ طوفان کا دھارا مڑ جائے گا‘ نفرت کا دھواں چھٹ جائے گا‘ انتشار وافتراق کا آتش فشاں سرد ہوجائے گا اور ہم صرف اپنی ناکارہ تدبیروں سے حالات پر قابو پالینے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ اگر ہماری خوش فہمیوں سے حالات بدل جاتے تو اب تک کبھی کے بدل گئے ہوتے‘ مگر حق تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے:
”ان اللہ لا یہدی القوم الفاسقین“
(بے شک اللہ تعالیٰ راہ نہیں سمجھاتا بدکار قوم کو) جب تک معاشرے پر فسق وبدکاری کا عفریت مسلط ہے‘ ہمیں کبھی فلاح وبہبود کا راستہ نہیں مل سکتا‘ بلکہ جو تدبیر ہوگی الٹی ہوگی‘ اس قہرِ الٰہی سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم توبہ وانابت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے جو معاملہ بگاڑ لیا ہے اس کی اصلاح کریں۔۔۔
توبہ‘ توبہ‘ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم تیرے ہی بندے ہیں‘ تجھ ہی پر ایمان رکھتے ہیں اورتجھ ہی سے مغفرت چاہتے ہیں:”ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا‘ ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا ما لاطاقة لنا بہ‘ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین“۔
 
Top