گیان چند تنازعے میں ما بدولت بھی کود گئے

الف عین

لائبریرین
سمت آٹھ میں جو اپ لوڈ ہونے ہی والا ہے، ’اردو ہے جس کا نام ‘ کے تحت میرے کالم کا یہاں پری ویو پیش ہے:



محترم گیان چند (اور کیا کیا جائے کہ زبانِ قلم اب بھی ان کو نا محترم کہنے کو راضی نہیں)، کی کتاب ایک بھاشا، دو لکھاوٹ دو ا دب پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے، شمس الرحمٰن فاروقی کے بسیط تبصرے کے بعد اکثر اسی سی خوشہ چینی کی گئی۔ آخر گیان چند نے ایک بیان جاری کیا جس کا عنوان وہی تھا جو آپ کے اس جریدے کے ادارئے کا عنوان ہوتا ہے، ’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں‘۔ یہ پہلے ماہنامہ سب رس حیدر آباد میں شائع ہوا تھا اور وہاں سے ہم نے سمت کے پانچویں شمارے میں بھی شامل کیا تھا۔
محترم گیان چند کو شکایت ہے کہ غیر مسلم ادباء کو اردو دنیا (ان کے مطابق پڑھیں ’مسلم دنیا‘) میں خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوتی ہے۔ اسی شمارے کے لیے ہم کو جوگا سنگھ انورؔ کی کتاب ’اگنی کنڈ‘ تبصرے کے لیے ملی تو یہ زخم پھر کریدنے میں آ گئے اور ہم اپنا منہہ بند نہیں رکھ سکے ہیں۔
پہلے میں ذرا اپنی بچپن کی یادوں میں آپ کو شریک کر لوں۔
اب سے کم و بیش ۴۵ برس پہلے کی بات ہے جب ہم بمشکل بارہ تیرہ برس کے رہے ہوں گے۔ والد محترم صادقؔ اندوری ایک دن صبح صبح ہم کو اپنے ساتھ لے کر اندور، مدھیہ پردیش کے قریبی شہر مہو (چھاؤنی) لے کر گئے۔ وہاں اور کہاں کہاں گئے، یہ تو اب یاد نہیں۔ دوپہر ہوتے ہوتے ایک گھر میں پہنچے۔ یہ والد کے ایک دوست کا گھر تھا۔ لحیم شحیم سرخ سپید۔ والد نے تعارف بھی کرایا ’بیٹے یہ گوہر چچا ہیں‘ اور ہم سے پہلے خود گوہر چچا نے ’السلام علیکم‘ کہا اور ہم سے ’مزاج شریف‘ پوچھا۔ یہ دونوں بزرگ باتیں کرتے رہے۔ کسی مقامی ادیب کی اردو دانی کا ذکر تھا۔ گوہر چچا کہنے لگے ’ صادق بھائی ملاحظہ کیجیے۔ یہ صاحب کہنے لگے کہ حسنِ اتّفاق سے کار کا یہ حادثہ ہو گیا۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ یہ حسنِ اتّفاق ہے یا قباحتِ اتّفاق؟‘
اس عمر تک ہم نے بھی کافی ادب پڑھ لیا تھا اور اکثر ’حسنِ اتّفاق‘ کی ترکیب بھی پڑھی تھی اور ہم خود اس کا مطلب محض اتّفاق کا ہم معنی سمجھتے تھے۔ گوہر چچا کی اس بات نے توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اتّفاق تو اتّفاق ہوتا ہے، اس میں حسن ہو، تو اسے حسنِ اتّفاق کہا جائے، اور اگر منفی ہو تو عام طور پر ’قباحتِ اتّفاقّ کی اصطلاح استعمال تو نہیں کرتے لیکن اسے محض اتّفاق ہی کہا جاتا ہے۔ یہ بات اس دن سے ہمارے ذہن میں ایسی بیٹھ گئی ہے کہ اب تک بھی بھول نہیں سکے۔ خیر، گفتگو کے بعد دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو اپنا کلام سنایا۔ اس کے بعد دسترخوان بچایا گیا۔ کھانا تو ہم نے بھی پیٹ بھر کر کھایا لیکن بڑے تعجب سے۔ اور جب فارغ ہو کر رخصت ہوئے تو پہلی بات ہم نے والد سے یہ کہی۔ ’ابی صاحب، کیسا کھانا تھا گوہر چچا کے یہاں۔ گوشت تو تھا ہی نہیں۔ کیا ایسی بھی دعوت ہوتی ہے؟‘ ابی صاحب نے جواب دیا ’بیٹے ان کا پورا نام معلوم ہے۔ یہ جیون لعل گوہر’ ہیں۔ ہندو ہی نہیں بلکہ جین ہیں۔ اور جین لوگ گوشت نہیں کھاتے‘۔ ہمارےگھر میں روز تو نہیں لیکن ایک دن بیچ گوشت ضرور پکتا تھا، اور ایسی ’قباحتِ اتّفاق‘ کبھی نہیں ہوئی تھی کہ کسی اور گھر میں کھانا کھایا ہو اور گوشت کی کوئی ڈِش نہ ہو۔ بچپن سے ہی ہمارے گھر میں ریڈیو کے مشاعرے شوق سے سنے جاتے تھے، اور جگر اور خمار کے ساتھ ساتھ فراق، جوش اور عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد اور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا کلام سنتے وقت کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ان شعراء کرام میں کچھ فرق بھی ممکن ہے۔ ان دنوں شاعری تو مکمل سمجھ میں نہیں آتی تھی، لیکن گھر میں جو رسائل آتے تھے، ان کے افسانے ضرور پڑھتے تھے ہم اور کرشن چندر کے دیوانے ہو چکے تھے۔ بعد میں بیدی اور رام لال کو بھی پسند کرنے لگے، لیکن اردو دنیا میں مسلم اور غیر مسلم، ’دو اردوئیں‘ ہیں، یہ احساس کبھی نہیں ہو سکا۔ اور اب مجھے کہنے دیجیے کہ جس طرح عالمی طور پر ۱۱ ستمبر کی تاریخ ایک واٹر شیڈ بناتی ہے، اسی طرح ہمدوستان بلکہ برِ صغیر کی تاریخ میں ۶ دسمبر کی اہمیت بھی ہے۔ شک ہے کہ بابری مسجد کے وقوعے سے اس اردو تہذیب کی موت کو جوڑا جا سکتا ہے۔
لیجیے، ہم اچانک تیس سال کی چھلانگ مار گئے۔ اب آئیے ہمارے پکی عمر کے مشاہدے کی طرف۔
اس مشاہدے کا ذکر کرنا اس لیے بھی یاد آیا کہ اس شمارے کے لیے ہی ہم کو جب ’اگنی کنڈ‘ ملی اور اس کے شاعر کا نام دیکھا ’جوگا سنگھ انورؔ‘ تو فوراً یہی خیال آیا کہ کیا یہ صاحب پنجاب کی کسی اکادمی کے صاحبِ کرسی تو نہیں۔ مشاعروں سے ہمارا تعلق نہیں ہے، اس لیے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ کتاب پڑھنے پر معلوم ہوا کہ مشاعروں کے ہر دل عزیز شاعر واقع ہوئے ہیں، اور کسی اکادمی وغیرہ کے نہیں، ٹاٹا کی فولاد فیکٹری سے تعلق رکھتے ہیں یا تھے۔
ایک ماہ نامہ ’آج کل‘ کی ادارت کا ذکر لیجیے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ حکومتِ ہند کا سرکاری رسالہ ہے۔ اگر چہ اس کے مدیر بڑے ادیب بھی گزرے ہیں۔ لیکن یہ مشاہدہ ہوا کہ کچھ مدیران نسبتاً کم مشہور ادیب بھی رہے جو غیر مسلم تھے۔ اور شاید یہی ان کی زیادہ بہتر کوالی فکیشن تھی۔ ظاہر ہے کہ سرکاری پرچوں کے مدیر ہوں یا اکادمیوں کے سر براہ۔ ان کا انتخاب کافی حد تک سیاسی ہوتا ہے۔ کسی وزیر یا لیڈر کے کہنے پر تقررات کیے گئے ہوں گے اس قسم کے۔اور جب انتخاب کی باگ ڈور کسی غیر مسلم ادیب یا بہت حد تک ممکن کسی غیر مسلم سیاسی رہنما کے ہاتھ میں ہو، تو اس کی نظرِ انتخاب کسی مشہور مسلم ادیب کی بہ نسبت کسی کم مشہور یا گمنام غیر مسلم پر پڑنا حقیقت سے بعید نہیں۔ بہت سے ایسے عہدے آئی اے ایس افسران کو دئے جاتے ہیں۔ اور جب یہ حضرات کسی اس قسم کا عہدہ حاصل کر لیتے ہیں تو ان کے چمچے ان کو بڑا ادیب ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں نہ صرف اہتمام سے شائع ہوتی ہیں، بلکہ ان کا اجرا بھی وزیرِ اعظم یا کسی ریاست کے وزیرٕ اعلی کے ہاتھوں ہونا عام بات ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ کبھی کبھی مسلم حضرات کا انتخاب بھی ہو جاتا ہے، لیکن یہ سبھی ضروری نہیں کہ بڑے ادیب یا اردو عالم ہی ہوں۔ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں اردو اکادمیاں ہیں، ریڈیو سٹیشن ہیں۔ ریڈیو سٹیشنوں کے پروگرام ایکزیکیٹئو ہوں یا ڈائریکٹر یا ان اکادمیوں یا دوسری اردو سے جڑی کمیٹیوں کے سر براہ۔ ان عہدے داروں کی فہرست بنائیں تو میری بات میں وزن محسوس ہو گا۔ میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ دیکھیے یہ مشاہدہ درست ہے کہ محترم گیان چند جین کا؟جن عہدے داروں کی میں بات کر رہا ہوں، ان کی میعاد ختم ہونے پر اردو دنیا ان کو بھول بھی جاتی ہے۔
اب سے پندرہ سال پہلے تک بھی ہمارے لیے ہی نہیں، ہر اردو والے کے لئے یہ کوئی اہمیت نہیں تھی کہ ادیب یا شاعر کس مذہب کا ہے، اس نئے احسا س کو بابری مسجد کے وقوعے سے جوڑتے ہوئے ہمیں کوئی عار نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ منفی سوچ اردو تہذیب میں در آئی ہے، دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
رہا سوال گیان چند کے ایک بھاشا اور دو لکھاوٹوں کے نظریے کا۔ تو ہم تو کمپیوٹر اور انٹر نٹ سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ اور ہم تو اردو کی تصویروں کو بھی اردو نہیں مانتے۔ اور رومن رسم الخط میں ادو کی ویب سائٹس سے دور بھاگ لیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم اردو تحریر کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ ویب جریدہ ’سمت‘ بھی ہماری ان کوششوں کی ہی ایک کڑی ہے۔ آخر یہ اردو ادب کا پہلا ویب جریدہ ہے جو اردو تحریر میں نکالا گیا ہے۔
اور چلتے چلتے یہ بات بھی گوش گزار کر دیں کہ ہمارا کوئی شمارہ اب تک ایسا نہیں ہو گا جس میں کسی غیر مسلم ادیب یا شاعر کی تخلیق نہ ہو۔ زیادہ بسیط گفتگو کرنے کی نہ ہم میں اہلیت ہے نہ ہمت۔ بس اپنے اُس مشاہدے کی بات کرنے کے لئے زباں کھولی تھی جو محترم گیان چند کی تھیسس کی انٹی تھیسس ہے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
اعجاز صاحب ، آپ ان کو بےشک "محترم" کہہ لیں۔ لیکن جب بھی ادب کے حوالے سے گیان چند جین کی تنقید پر اپنے والد صاحب‌ سے ہماری بحث‌ ہوئی ہم نے گیان صاحب کو ہمیشہ اردو کا غیر مسلم متعصب ادیب کے طور پر یاد کیا۔ بےشک اردو ادب و تنقید پر ان کا احسان سہی لیکن ان کے بعض "تعصب بھرے خیالات" ہم تو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن میں نے گیان چند کو محض محترم ہی تو کہا ہے، ان کے خیالات کی تو مکمل مخالفت بلکہ ایک الٹا مشاہدہ پیش کیا ہے یہاں۔
خیالات سے قطعِ نظر، تنقید و تحقیق میں ان کا مقام فراموش تو نہیں کیا جا سکتا۔
 
Top