کاشفی

محفلین
غزل
(فنا نظامی کانپوری)
گھر ہوا، گلشن ہوا، صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا

غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا


میں تو پہنچا ٹھوکریں کھاتا ہوا
منزلوں پر خضر کا چرچا ہوا

حُسن کا چہرہ بھی ہے اُترا ہوا
آج اپنے غم کا اندازہ ہوا

غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا

پرسش غم آپ رہنے دیجئے
یہ تماشا ہے مرا دیکھا ہوا

یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے
اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا

رہتا ہے مےخانے ہی کے آس پاس
شیخ بھی ہے آدمی پہنچا ہوا

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں
اے فنا رہزن کو بھی صدمہ ہوا
 
Top