گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

ہندوئوں کی دیو مالائی رام کہانی میں راون کی لنکا (موجودہ سری لنکا) ڈھانے میں گھر کے بھیدی نے شری رام چندر کی کیا مدد کی تھی، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہمیں تو یہ کہاوت امریکی سی آئی اے کے بھیدی ’’جان کریاکو‘‘ کے اس کردار سے یاد آئی ہے جو اس جری شخص نے سی آئی اے کے سیاہ کارنامے منظر عام پر لانے میں ادا کیا ہے اور امریکی حکومت اب اسے سزا دینے پر تل گئی ہے۔ 5 اپریل 2012ء کو اس پر سرکاری راز صحافیوں کو بتانے کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے سی آئی اے کے ایک خفیہ ایجنٹ کا نام افشا کر دیا اور خفیہ آپریشن میں سی آئی اے کے ایک اور ملازم کے کردار سے بھی پردہ ہٹا دیا۔
جان کریا کو نے سب سے پہلے سی آئی اے کے شرمناک ہتھکنڈے ’’واٹر بورڈنگ‘‘ سے دنیا کو آگاہ کیا تھا۔ ٹارچر کا یہ طریقہ اس نے گوانتاناموبے اور دیگر خفیہ اڈوں میں القاعدہ کے نام پر دنیا بھر سے پکڑے گئے مسلمان قیدیوں سے ظالمانہ طور پر روا رکھا ہوا تھا۔ گزشتہ جنوری میں اس پرالزام لگایا گیا تھا کہ اس نے واٹر بورڈنگ کے سرکاری راز کھول دیئے ہیں۔ فرد جرم عائد ہونے سے اب مقدمہ آگے بڑھے گا مگر اس کی کھلی سماعت نہیں ہوگی، بلکہ سارا معاملہ خفیہ رہے گا۔یاد رہے واٹر بورڈنگ نہایت ظالمانہ طریقہ ہے جس سے قیدی کو جھوٹے سچے اعتراف پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسے ایک تختے پر باندھ کر تختے کو اس طرح ڈھلواں رکھا جاتا ہے کہ اس کا سر نیچے کو اور نچلا دھڑ اٹھا ہوتا ہے۔ پھر اس کے منہ پر پانی کا تیز دھارا مارا جاتا ہے جس سے سانس کی نالی میں پانی بھرتا ہے تو اسے نہایت تکلیف دہ احساس ہوتا ہے جیسے وہ ڈوب رہا ہو۔
ریاست ورجینیا میں گرینڈ جیوری نے جو فرد جرم عائد کی، اس میں کریاکو کو ’’قانون تحفظ خفیہ شناخت‘‘(IIPA) اور جاسوسی ایکٹ (Espionage Act) کی خلاف ورزی کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ اس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے سی آئی اے بورڈ کے سامنے جھوٹا بیان دیا تھا۔ نیز اس نے ایجنسی کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کی تھی جب اسے اس کی 2010ء میں شائع شدہ کتاب میں خفیہ معلومات شامل کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا نام ہے۔
The Reluctant Spy: My Secret life in the CIA`s War on Terror
متامل جاسوس (Reluctant Spy) جان کریاکو پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے دسمبر 2007ء میں ’’اے بی سی نیوز‘‘ کو انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو سے وہ پہلا امریکی افسر ٹھہرا جس کے بیان سے پتہ چلا کہ بدبخت پاکستانی آمر پرویز مشرف نے جو فیصل آباد سے القاعدہ کے لیڈر ابو زبیدہ کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کر دیا تھا، اسے سی آئی اے نے انتہائی تکلیف دہ عمل واٹر بورڈنگ سے گزارا ہے جبکہ ہر کوئی اس ظالمانہ تکنیک کو ٹارچر قرار دیتا ہے۔ خالد شیخ محمد کو امریکی درندے اسلام آباد سے اٹھا لے گئے تھے اور اسے نائن الیون کے سانحات کا ماسٹر مائند قرار دے کر 85 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ گندے کردار والے امریکیوں کو جانے پچاسی چھیاسی جیسے اعداد سے کم پر قرار کیوں نہیں آتا جیسا کہ ابلیس کے ان فرزندوں نے پاکباز اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 86 سال کی سزا سنا کر بدستور قید میں رکھا ہوا ہے جبکہ رذیل پرویز مشرف کو پاکستان کی ایک بیٹی امریکیوں کے حوالے کرنے پر ذرا شرمساری نہیں۔
جان کریاکو نے 1990ء سے 2004ء تک سی آئی اے میں خدمات انجام دیں۔ فرد جرم میں اس پر الزام لگا ہے کہ اس نے ’’صحافی اے‘‘ اور ’’صحافی بی‘‘ دو نامعلوم رپورٹروں کو ادارے کی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔ کریاکو نے اپنی کتاب میں ’’میجک باکس‘‘ کے بارے میں بھی معلومات شامل کی ہیں جو کہ سی آئی اے کا ایک سکیننگ آلہ ہے جو پاکستان میں مشتبہ القاعدہ افراد کی ان کے موبائل فونز کے ذریعے نشاندہی کرتا ہے۔ اس نے سی آئی اے کے ریویو بورڈ کو بتایا کہ اس نے ان معلومات کو فکشن کے انداز میں پیش کیا ہے جبکہ ایسی بات نہیں تھی۔ میجک باکس کی ٹیکنیک نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی بیان کی گئی تھی۔ اس کی کتاب میں سی آئی اے حکام کی تصاویر سمیت وہ خفیہ معلومات بھی شامل ہیں جو وکلائے صفائی کی فائلوں میں شامل ہو گئیں جو کہ گوانتاناموبے (کیوبا) کے بحری اڈے میں رکھے گئے قیدیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ فرد جرم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کریاکو نے 2008ء میں نیو یارک ٹائمز کو خفیہ معلومات فراہم کیں جس نے ایک مضمون میں سی آئی اے کے ایک اہلکار کا کچا چٹھا کھول دیا۔ خفیہ راز لیک کرنے کے ہر جرم کی سزا دس برس ہے جبکہ جھوٹے بیانات دینے پر پانچ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
سابق جاسوس جان کریاکو کا جرم یہی ہے کہ اس نے امریکی عالمی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی بعض پوشیدہ باتیں افشا کر دی ہیں۔ امریکہ اپنی نام نہاد دہشت گردوں کی فہرست میں بعض عالمی شخصیتوں اور گروہوں کے نام شامل کرتا اور نکالتا رہتا ہے۔ 1982ء میں اس نے صدام حسین سے ایران کے خلاف کام لینے کے لئے ان کا نام مذکورہ فہرست سے نکال دیا تھا۔ اسی طرح جب قذافی نے اپنی ایٹمی تنصیبات امریکہ کے حوالے کر دیں تو 2006ء میں اس کا نام بھی فہرست سے خارج کر دیا تھا، مگر جب لیبیا کے تیل پر قبضے کی ضرورت پڑی تو امریکہ قذافی کی آمریت کے پھر پیچھے پڑ گیا اور ناٹو کی بمباری سے قذافی کے مخالفین کا کام آسان کر دیا حتیٰ کہ قذافی 20 اکتوبر 2011ء کو سرت آپریشن میں مارا گیا۔ اسی طرح صدام سے جب کام لے لیا گیا تو اس پر ایٹمی اسلحے کی تیاری کا جھوٹا الزام لگا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پھر یکم جنوری 2006ء کو بغداد کی کٹھ پتلی حکومت سے اسے سزائے موت دلوا کر پھانسی لگوا دی۔ امریکی اخبار نیو یارکر کے سیمور ہرش کے بقول امریکہ نے حکومت ایران کے مخالف گروہ ’’مجاہدین خلق‘‘کو ریاست نیو اڈا میں ایک خفیہ ڈپارٹمنٹ آف انرجی سائٹ پر دہشت گردی کی تربیت دی تھی۔ یہاں 2005ء میں ان کی تربیت کا آغاز جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ (JSOC) نے کیا تھا جس کا مقصد مجاہدین خلق کے ذریعے زیر زمین ایرانی ایٹمی تنصیبات کا سراغ لگانا تھا، مگر مجاہدین خلق سے ایران میں خفیہ آپریشنوں میں کام لینے کے باوجود آج بھی اس تنظیم کا نام غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ گزشتہ فروری میں این بی سی نیوز رپورٹ میں دو سینئر امریکی حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے پے در پے قتل میں ’’مجاہدین خلق‘‘ ملوث ہے۔ نیز اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد اسے سرمایہ، تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔ یوں اسرائیل ایک دہشت گرد گروہ کا ریاستی پشت پناہ ہے۔ سائنسدانوں کے قتل میں بم دھماکوں اور کاری رائفلوں سے کام لیا گیا ہے۔ اس پر ’’اینٹی وار‘‘ کے گلین گرین والڈ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک تنظیم سے دہشت گردی کروانا امریکی قانون کے مطابق سنگین جرم نہیں جس کی سزا پندرہ سال تک کی قید ہے؟ ادھر امریکی عدالتیں اس سے کہیں کمتر جرائم پر مسلمان قیدیوں کو بھاری سزائیں دے ڈالتی ہیں۔ یوں ایک عالمی دہشت گرد ملک امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے ریاستی سرپرستوں کی فہرست جاری کرنا امریکی خارجہ پالیسی کا عظیم ڈرامہ ہے۔


بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top