مُرغی نامہ
پچھلے دنوں دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں، مرغیوں میں برڈ فلو کی بیماری پھیلنے کے سبب لاکھوں مرغیاں تلف کرنی پڑیں ، اور اس کی وجہ سے مرغیوں کی قیمتوں میں بھی اچانک اتنی کمی واقع ہوگئی کہ غریب عوام بھی بہ آسانی اس سے کچھ عرصے کے لئے لطف اندوز ہوسکے۔یہ اشعار اسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔
گرانی کر نہ سکی تھی جو رام مرغی کو
ترس گئے تھے ہمارے عوام مرغی کو
لگا سکا تھا ، نہ کوئی لگام مرغی کو
کیا ہے ”برڈ فلو“ نے اب عام مرغی کو
اِسی کے دم سے ہیں مطبخ کی رونقیں ساری
مِلا ہے ارفع و اعلیٰ مقام مرغی کو
ہیں ایک ہم کہ جو انڈے بھی چھو نہیں سکتے
ہیں ایک وہ کہ تلیں صبح و شام مرغی کو
پروں نے ،کلغی نے اور مل ملا کے پنجوں نے
کلو بنا دیا چھ سو گرام مرغی کو
چکن پلاؤ ، چکن سوُپ اور چکن برگر
پکائیں جس طرح اب چاہیں خام مرغی کو
چِکن کے کپڑے پہن کر وہ خوب اترائیں
ملا نہ ایسا کبھی احتشام مرغی کو
یونہی تو کہتے نہیں ہم کو مِلّتِ بیضا
اُڑا کے انڈے ، کریں ہم سلام مرغی کو
لڑے جو خوان پہ آپس میں آج دو مُلّا
سنا ہے کر گئے ہیں وہ حرام مرغی کو
ٹھہر کے آج ذرا تو مزاجِ ”شیور“ دیکھ
لگا نہ ہاتھ یوں نازک خرام مرغی کو
سناؤں گا یہ غزل آج جا کے ڈربے میں
پسند آئے گا میرا کلام مرغی کو
شِکم زدوں کے ہے لب پر یہی دُعا مظہر
سدا رہے یونہی نزلہ زکام مرغی کو