گولی لگتے ہی شیر گرا۔۔۔

السلام علیکم
جناب بہت دیر سے حیران و سرگرداں رہا کہ اس تحریر کو کس زمرہ میں رکھوں ۔ کہ اس موضوع پر تحریر تو صرف لائیبریری سیکشن میں ہی ہیں اور وہاں بندہ بے دست و پا ، چنانچہ یہاں رکھتا ہوں اگر شرف قبولیت پر فائز ہوجائے تو جس جگہ کے مناسب ہو وہاں لگا دیں ورنہ کچرا پیٹی میں روانہ فرمادیں
ھما ڈائجیسٹ 1997 کے ایک شمارے سے نقل تحریر ہے اوراق بوسیدہ و کٹے پھٹے ہیں اس لئے مصنف کا نام نہ سمجھ میں آیا۔

گولی لگتے ہی شیر گرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی سے قبل گرمیوں کی تعطیلات اپریل سے شروع ہوتی تھیں۔ ان چھٹیوں میں بزرگ انڈے بچّے جمع کرکے شکار کے لئیے نکل جاتے تھے۔ جتنی دور جالیں، شکار اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اور شکار جتنا اچھّا ہو پروگرام اتنا ہی طویل ہوجاتا تھا۔ٹیم میں ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ جن میں شکاریوں اور مصاحبین کے علاوہ ڈاکڑ اور خانساماں بھی شامل ہوتے تھے۔ ڈاکڑوں کی ماہرانہ دیکھ بھال اور مشوروں کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جنگل میں طویل عرصہ رہنے اور ہر قسم کے جراثیم کا سامنا کرنے کے باوجود ہم صحیح سلامت واپس آجاتے۔ کبھی کبھی تو شکار کی مہم ایک ماہ طویل ہوجاتی تھی۔ اور ٹیم کے اراکان کی تعداد پندرہ سے بیس تک پہنچ جاتی تھی۔
ایک بار ہم لوگ ہندوستان کے صوبہ سی ۔ پی اور ایسٹرن اسٹیٹس کی سرحدوں کے پاس دریائے مہا ندی کی ایک شاخ کے کنارے شکار کے لئیے گئے۔ یہاں ایک مختصر سا گاؤں آباد تھا۔ جس کے پاس خالصتآ پوچر آباد تھے۔ یہ لوگ شہد جمع کرتے تھے۔ اور کچھ جانور بھی پال رکھے تھے۔ جنگل میں شکار کی بہتات تھی یہی وجہ تھی کہ جنگلی جانور پالتو جانوروں پر زیادہ توجّہ نہیں کرتے تھے۔دریا نزدیک تھا ،لٰہذا تھوڑی ہی گہرائی پر کنویئں سے شفاف پانی مل جاتا تھا۔یہ علاقہ جن ڈاکوؤں کی عمل داری میں تھا۔ان سے ہمارا کاروباری قسم کا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ ہم نے ایک برگد کے درخت کے زیر سایہ اپنا کیمپ لگا لیا۔ اور شکار خوب زوروں پر رواں دواں ہوگیا۔ گاؤں والے بھی خوش تھے۔ ان کے لڑکے اور نوجوان ہمیں اجرتآ کنویں سے پانی اور جنگل سے جلانے کی خشک لکڑیاں لادیتے تھے۔ دودھ اور شہد بھی ہمارے پاس فروخت کرتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ شکار پر بھی جایا کرتے تھے۔ علاوہ شکار کا گوشت انکو تنخواہ بھی ملتی تھی۔ ان کے کھوجی بھی ہماری مدد کرتے تھے۔ غرض کسی کے ساتھ بھی ہماری چقلیش نہ تھی۔
جنگل کے باشندے جن تعلق دراوڑ نسل سے تھا، مہذب تہذیب سے بے نیاز تھے۔ رنگ سیاہ اور چہرا کریہہ لیکن آبادی سے کافی فاصلہ پر ہونے کے باوجود انتہائی صفائی پسند اور گٹھے ہوے ٹھوس جسموں کے مالک تھے۔ ناف کے اوپری حصّہ میں لباس خال خال ہی نظر آتا تھا۔ پوشاک ہونے نہ ہونے لمبائی ،کوتاہی یا تنگی پر کوئی قدغن نہ تھی۔لڑکیوں کو نسوانی محاسن کا شدّت سے احساس تھا۔آزاد خیال تھے،اور جنسی میل ملاپ میں بہت پابندی نہ تھی۔ہماری سوسائٹی کے بعض آزاد منش عناصر کی طرح جو اپنی ازدواج کو پیش پیش رکھتے ہیں، یہ لوگ بھی جورو پر مکمل مالکانہ حقوق پر بضد نہ تھے۔ بہت محدود سکّہ رائج الوقت ، گوشت یا کھال کے عوض بھر پور تعاون کے لئیے تیار رہتے تھے۔ کنواری لڑکیوں کے بارے میں البتّہ بہت قدامت پرست اور سخت گیر تھے۔ اور انکے آزادانہ میل ملاپ پر مکمل پابندی اور سخت نگرانی تھی۔انتہائی امکانی کوشش یہی ہوتی تھی،کہ ان کو صحیح سلامت ان کے شوہروں کے حوالہ کیا جائے۔تا ہم بیوہ ہر امتناع سے آزاد تھی۔سیاح شکاری یا آنے جانے والے جانکار اس صورت حال کا فائیدہ بھی اٹھاتے تھے۔
ایسے پرسکون ماحول میں کباب میں ہڈّی صرف ایک ذات شریف تھے۔ جو خود کو بزعم خود مقامی محکمئہ شکار سے متعلق کہتے تھے، اور انھوں نے تمام گاؤں والوں کو ہراساں خوف زدہ کررکھا تھا۔ اس کے لئیے ان لوگوں نے ایک کشادہ جھونپڑی بنا دی تھی۔ اور وہ گاؤں والوں سے ہر جائیز و نا جائیز کام مفت میں لیا کرتا تھا۔ نوجوان لڑکیوں پر نظر کرم کچھ زیادہ ہی رہتی تھی۔ نہ معلوم ڈاکو بھی اس سے کیوں پہلو تہی کرتے تھے۔ وہ ملی جلی نسل کا تقریبآ تیس سال کا تھا۔ اور مقامی باشندوں سے یکسر مختلف تھا۔ ایک عدد بلا لائسنس ایک نالی چھّرہ دار بندوق کا مالک بھی تھا۔ ہمیشہ کارتوس مانگا کرتا یا غائیب کرلیتا تھا۔ شکار اور معاملات شکار ، جانوروں کی کھوج لگانے اور انکی بولی بولنے میں ماہر تھا۔ کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے برآمد ہوجاتا تھا جہاں اسے ہرگز نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ اسکو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ تو جب ہم شکار پر فائیر کرنے والے تھے۔ تو نزدیک سے اسکا فائر ہوا اور ہمارا شکار بدک گیا۔ مختصر یہ کہ وہ ہم سب میں (مقامی باشندوں اور شکاریوں میں) کافی نا پسند یدہ اور غیر مقبول تھا۔ جب اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں بنی تو تنگ آکر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے درمیانی جوڑ میں شامل کرلیا جائے۔ اس کا اصلی و صحیح نام تو کبھی معلوم نہ ہوا، لیکن اسے سب بابو رام کہتے تھے۔
ہمارے شکار کا آغاز علی الصبح سورج نکلنے سے کا فی پہلے ہوجاتا تھا۔ شکار کی ایک بڑی جوڑ تو بڑے شکار کی تلاش میں تڑکے ہی نکل جاتی تھی۔ بڑے شکار میں شیر گلدار، بھنیسا، گور اور ریچھ شامل تھا۔ جبکہ چھوٹی جوڑ جنگلی مرغی، ہریل، مور، خرگوش اور تیتر وغیرہ سے سروکار رکھتی تھی۔ درمیانی جوڑ کاکام، جس میں بڑی جوڑ اور کبھی چھوٹی جوڑ کے فالتو بندے شامل کرلیے جاتے تھے، کیمپ میں با افراط خوراک فرہم کرنے کے لئیے چیتل، سانبھر،پھارا، کالا ہرن، چنکارہ اور نیل گائے مارتا تھا۔ درمیانی جوڑ کو اگر کوئی خطرناک جانور اچانک مل جائے تو باشرط ہمّت اس پر وہ طبع آزمائی کرسکتے تھے۔ بشرط ہمّت یوں کہا کہ تمام کاروائی سطح زمین سے ہوتی تھی۔ اور اگر فائر کرنے میں احتیاط نہ کی یا گولی صحیح نہ لگی تو آپ کے اور جانور کے حق میں فیصلے کے امکانات ففٹی ففٹی رہ جاتے ہیں۔ یہ جوڑ سورج نکلنے سے قبل کیمپ چھوڑ دیتا تھا اور مقامی کھوجیوں کی رہنمائی میں شکار کرتا رہتا تھا۔اس زمانے میں جیپ یا پک اپ تو تھے نہیں لیکن شہر سے باہر ٹینری وغیرہ کاروبار کرنے والوں سے “ٹھیلا“ مل جایا کرتا تھا جس پر وہ ہر روز شہر سے ٹینری لے جاتے تھے۔ ٹھیلا کھلی چھت کی پرانی فورڈ یا شیورلیٹ کار کو کہتے تھے جس کی اگلی سیٹ تو رہنے دی جاتی۔ لیکن پچھلا حصّہ کاٹ کر اسکا فریم لمبا کرکے سامان بردار یا بچّوں کو اسکول لے جانے والی سواری قسم کی چیز بنا لی جاتی تھی۔ اس پر شکار بھی ہوتا تھا۔ اگر شکار کا پروگرام طویل ہو تو اسکے ساتھ فوجی قسم کا ٹریلر بھی جوت دیا جاتا تھا۔
جس شکار کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں ہم دو عدد ٹھیلے اور دو ٹریلر لے گئے تھے۔ ان کے علاوہ تین چار بیل گاڑیاں بھی ہمارے استعمال میں تھیں۔ ہمارے کیمپ سے تقریبآ ایک میل کے فاصلے پر ایک ندی بہتی تھی۔ پانی تو اسمیں کم تھا، لیکن پاٹ چوڑا ہونے کے سبب درمیان میں جھاڑیاں گھاس اور کہیں کہیں درخت بھی تھے۔ندی کا کنارہ ندی کی سطح سے کچھ ہی بلند تھا۔وہاں بھی جھاڑیاں اور درخت تھے۔ ایک روز بابو رام نے اس ندی پر جانے کا پروگرام بنایا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ ہم چار افراد کو ٹھیلا ندی کے کنارے چھوڑ گیا۔ ہم سب نے رائفلیں بندوقیں اور کھانے پینے کا سامان سنبھال کر مورچے پکڑ لیے۔ رائفلیں اور بندوقیں بھر لی گئیں۔ جنگل میں طلوع آفتاب کا سماں بہت سہانا ہوتا ہے۔ ہر طرف سکون سا طاری رہتا ہے۔رات کے شکاری اپنا کاروبار ختم کرکے روشنی سے چھپنے کی غرض سے جنگل اور جھاڑیوں میں چلے جاتے ہیں۔ سبزی خور جانور بھی مکمل دن نکلنے سے قبل ناشتے کا آخری دور کرکے اندرون جنگل کھسک لیتے ہیں۔ سب کے سب حضرت انسان سے ڈرتے ہیں۔ جو اپنی تخریب کاری زیادہ تر دن میں ہی کرتا ہے۔ کیونکہ دیگر جانوروں اور پرندوں کے برعکس اسے مصنوعی روشنی کے بغیر تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا۔جنگل میں پرندے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ جو نظام قدرت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو جنگل کو اس فرض کے علاوہ اپنے اپنے رنگوں سے خوبصورتی یا اپنے دلفریب نغموں سے چاشنی بخشتے ہیں۔ چنانچہ جنگل کا کوئی لمحہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔
ابھی ہم قمریوں کی مسحور کن لحن،تیتروں کے سوال وجواب و دعوے، جنگلی مرغوں کے بانگ اور موروں کی تیز پیاؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہ کچھ دور دریا کے ریت اور میدان میں چیتلوں کا ایک چھوٹا سا غول چرتا ہوا نظر آیا۔یہ غول ہماری ہی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہوا کا رخ بھی صحیح تھا یعنی ہوا ان کی جانب سے ہماری طرف چل رہی تھی ہم کچھ اور دبک گئے چیتلوں نے ہماری جانب آتے آتے ندی کا دوسرا کنارہ پکڑ لیا اور اسی سیدھ میں چلتے رہے۔اس طرح جب وہ ہمارے سامنے پہنچے تو ہم سے ان کا فاصلہ کوئی سو گز رہا ہوگا شکار کی مہم پر روانہ ہونے سے قبل ہم ہر روز بذریعہ قرعہ اندازی یہ فیصلہ کرلیتے تھے کہ اوّل، دوئم، سوئم، نمبر پر کون فائر کرے گا۔ اس طرح شکار میں بد مزگی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ فائر کرنے والے بزرگ نے جب یہ اندازہ لگا لیا کہ چیتل اب زد میں ہیں تو انھوں نے بہت احتیاط سے رائفل سے نشانہ لیا اور فائر کردیا، جس کی آواز ہر طرف گونجتی رہی، سامنے کی نیچی پہاڑی سے ٹکرا کر تو جیسے کئی مرتبہ واپس آئی، فائر کے ساتھ ایک چیتل تو اسی جگہ گر گیا لیکن ہم سے کافی قریب یعنی تقریبآ چالیس گز کے فاصلہ پر ایک جھاڑی سے ایک شیر نکل کر ٹراٹ بھاگا۔ وہ بھی غالبآ شکار کی مہم ہر آیا ہوا تھا۔ رائفل کے تڑاکے اور پھر اسکی گونج نے اسے اتنا بدحواس کر دیا کہ وہ ہم سے دور بھاگنے کی بجائے ہمارے سامنے متوازی دوڑنے لگا۔ ہماری ٹیم کے نمبر دو کھلاڑی نے جو پہلے ہی پیڈ باندھے تیار بیٹھے تھے۔ اس بھاگتے شیر پر اپنی رائفل سے فائر کیا۔نشانہ ٹھیک تھا۔شیر قلابازی کھا کر چھوئی موئی ہوگیا۔اور زمین پر اس طرح پڑ گیا، جس صورت سے کوئی زندہ شیر اپنی جان کی گٹھری نہ بنائے گا۔کہ ذرا بھی جنبش نہ تھی۔ اپنی جگہ ہم سب کھڑے ہو گئے۔ شیر کی ماری ہوئی ڈرل میں دوسرا ضروری کام یہ ہوتا ہے کہ ذاتی بیمہ کے طور پر ایک گولی اور مار دی جائے اور کھال کے خراب ہونے کے اندیشہ کو مانع نہ ہونے دیا جائے۔ چیتل کے فائر کے بعد تمام کاروائی اتنی جلدی ہوئی کہ ہم سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ جھاڑی سے شیر نکلا، اس پر فائر ہوا اور وہ لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس پر دوسرا فائر کرتا۔ بابو رام اپنی ایک نالی بندوق لے کر زمین پر گرے ہوئےشیر کی طرف بھاگا۔وہ تمام راہ شیر کو گالیاں دیتا جاتا تھا۔ اب ہم میں سے کوئی بھی شیر پر فائر نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ درمیان میں بابو رام آگیا تھا اپنی اپنی رائفلیں لے کر ہم بھی شیر کی طرف دوڑے۔ جب بابو رام شیر کے قریب پہنچا تو ہم اس سے دس گز کے فاصلے پر تھے۔ اس وقت اس نے شیر کو ایک انتہائی رکیک اور نا قابل اشاعت گالی دی اور اسکی دم کے نیچے ایک پرجوش لات رسید کی۔ اس کرہ ارض پر یہ بابو رام کا اختتامی کلام اور ٹھوکر مارنا اس کا آخری ارادی فعل تھا۔ اس کی لات پڑتے ہی شیر بجلی کی سرعت سے اٹھا،اگلے دونوں پنجے بابو رام کے دونوں کندھوں پر رکھے اور اسکے پیچھے لڑھکنے سے قبل ہی اسکا سر اپنے منھ میں لے لیا۔ کھوپڑی کی ہڈّیوں کے چکنا چور ہونے کی جانکاہ آواز صاف آئی اس کے بعد مردہ جسم کو شیر نے زور زور سے جھنجھوڑا اس دوران پنجوں سے جراحی بھی کرتا رہا اور پھر اسکو زمین پر گرجانے دیا۔ جب تک بابو رام شیر کے منہ میں رہا ہم میں سے کوئی بھی فائر نہ کرسکا۔ بابو رام سے فراغت پانے کے بعد شیر نے وہیں کھڑے کھڑے ہمیں خونی نگاہوں سے گھورا،تھوڑا سا غرّایا اور پھر خود ہی زمین پر دھڑام ہوگیا ۔ اسکا بھی یہ اختتامی فعل تھا۔ شیر کے گرنے کے بعد ہم سے ہر ایک نے اسکے جسم کے ہر حصّہ پر ایک یا دو فائر کیے۔ اس مرتبہ تو شیر واقعی مرگیا تھا۔ جب بابو رام کو ٹٹولا تو وہ بھی سورگ باس ہوچکا تھا۔ ایک شکاری فورآ کیمپ بھیجا گیا کہ وہاں ہر ایک کو اطلاع کرے۔اور بابو رام اور مردہ شیر دونوں کو کیمپ لانے کے لیئے ٹھیلا لے آئے
ہمارے ساتھی کی پہلی گولی شیر کے انتہائی کاری لگی تھی، وہ ہمارے سامنے دائیں سے بائیں بھاگا جارہا تھاشیر جب گیلپ جا رہا ہو تو اسکے اگلے دونوں پنجوں کے نشان زمین پر ایک ساتھ ملیں گے۔ اور پچھلے دونوں پیروں کے پنجوں کے نشانات اگلے پیروں کے نشانات سے آگے ملیں گیں۔ ان دونوں نشانات کے درمیانی فاصلہ سے شیر کی رفتار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ان دونوں نقش پا کے درمیان جتنا زیادہ فاصلہ ہوگا شیر کے بھاگنے کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہوگی۔ اس کے برعکس اگر شیر عام رفتار سے چل رہا ہو یا ٹراٹ جارہا ہو۔ تو اسکے ایک طرف کے آگے اور پیچھے کے ہاتھ پیر ایک ساتھ آگے بڑھیں گے اور دوسری طرف کے ہاتھ پیر اس کے بعد اسی وجہ سے شیر کی چال میں ہوا میں تیرنے کا احساس ہوتا ہے۔ عام رفتار میں ایک خاص بات یہ بھی ہوتی ہے۔ کہ پچھلا پیر اگلے ہاتھ کے نشانوں پر ہی پڑتا ہے اور شیر کے چار نقش پا کے بجائے دو ہی نظر آتے ہیں۔ اعشاریہ 404 بور کی 400 گرین کی نرم گولی نے اس کے جسم میں داخل ہوکر پہلے اس کے دل کا بالائی حصّہ تہ و بالا کردیا پھر وہاں سے گذر کر ایک پسلی توڑی اور بھر دایں مونڈھے کی کرسی کو ملیا میٹ کیا لیکن جسم سے باہر نہ نکلی۔ یہ گولی جان لیوا تھی اور اس نے دوران گیلپ شیر کو سر کے بل قلابازی کھلادی۔ اب یہ بات شیر دوبارہ کیسے اٹھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے جنگلی جانوروں میں دوبارہ ابھرنے کی اتنی قوت بھردی ہے کہ دل پھٹ جانے کے بعد بھی ان کے عضلات میں اتنی آکسیجن بچ جاتی ہے کہ ایک آدھ کو تو مار سکیں۔
شیخی میں بابو رام نے مسلّمہ شکاری اصولوں سے انحراف کیا، اس غلطی پر قدرت نے اسے نہیں بخشا اور وہیں انتہائی اندوہناک سزا دی۔ اس داستان کا صرف ایک ہی روشن پہلو ہے کہ شیر کے نرغے میں آتے ہی بابو رام فورآ سورگ باس ہوگیا اور اسے زیادہ وقت تک اذیت نہیں ہوئی۔شیر کے اوپر نیچے کے دو دو انچ لمبے دانت بابو رام کی کھوپڑی سے اندر گذر کر آپس میں مل گئے تھے۔ شیروں کی طاقت ان کے جبڑے، گردن اور پنجوں میں زور کی داستانیں تو عام ہیں اس کے بعد بھی جب یہ چیز ذاتی مشاہدے میں آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔
 
Top