گندی عورت ........ !

گندی عورت ........ !

وہ گندی عورت نہیں تھی لیکن اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی اور عورت ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے چاہے وہ مشرق کی روایت میں مقید ہو یا مغرب کی آزادی میں قید جی ہاں یہ قید ہی تو ہے کہ جو چار دیواری میں سکون سے رہنے کو جرم ہی بنا دے کیا ہوا کہ کوئی شہزادی بن کر گھر کی پرسکون فضاء میں آرام کے چند سانس لےسکے اور کیوں اسے مجبور کیا جاوے کہ وہ سڑکوں کی خاک چھانے .....

اسے یاد تھا
کچھ کچھ تھوڑا تھوڑا

گرجے کی دیواروں سے اٹھتا ہوا الوہی نغمہ اور وہ خود سفید لباس میں ملبوس جیسے آسمان سے کوئی حور زمین پر اتر آئی ہو اور اس کے لبوں پر جاری بائبل کی مقدس آیات بس یہی واحد یاد تھی اسکی اپنے رب سے تعلق کی ........

پھر وہی افرا تفری تیز سے تیز تر ہوتی ہوئی زندگی کہ جس کا ساتھ دیتے دیتے سانسیں مدھم پڑنا شروع ہو جائیں اور موت کی آہٹ قریب محسوس ہونے لگے ........

باپ کی موت اور ماں کا کم عمری میں ہی اسے اپنے کسی یار کیلیے چھوڑ جانا کیا کرتی کہاں جاتی اور پھر اس کی ابھرتی ہوئی جوانی کلی کو پھول بننے میں آخر کتنی دیر لگتی ہے ........

ہاں اس کا اثاثہ اور کیا تھا اس کا خوبصورت سانچے میں ڈھلا ہوا بدن حالات کے بے رحم ہاتھوں نے اسے ایک " گندی عورت " بنا دیا تھا ایک سٹرپر جس کا کام شراب خانے میں آنے والوں کو اپنی بے لباسی سے محظوظ کرنا ہی تو تھا ہاں کبھی کبھی وہ نیند میں سے جاگ اٹھتی وہ خواب جس میں وہ سفید لبادہ پہنے چرچ کی روحانی فضاء میں بائبل کی مقدس آیات پڑھ رہی ہوتی لیکن یہ خوبصورت یاد اب اسکیلئے ایک بھیانک خواب ہی تو تھی کہ جس سے وہ پیچھا چھڑانا چاہتی تھی ........

اے میرے مالک کب تک آخر کب تک اس غلاظت میں پڑے رہنا میرا مقدر ہے .........

پھر ایک دن کچھ عجیب ہوا گو کہ سورج اسی طرح نکلا اور غروب ہوا تھا چاند کی رنگت ویسی ہی تھی رات کی سیاہی ویسی ہی تو تھی لیکن وہ کون لوگ تھے بڑی بڑی داڑھیوں والے ڈھیلے ڈھالے سفید چمکتے ہوے پاکیزہ لبادوں میں ملبوس جیسے حضرت مسیح کے مقدس حواری بائبل کے صفحات سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں سامنے آن کھڑے ہوں ہر کوئی مبہوت تھا بے لباس سٹرپرز قریب پڑی میزوں سے چادریں کھینچ کر اپنے ننگے بدن چھپا رہی تھیں یہ کون لوگ تھے کہ جن کے آتے ہی حیاء بھی کہیں سے باہر نکل آئی تھی جو شاید کتنی ہی صدیوں سے انکے اندر کہیں دفن تھی یہ کون لوگ تھے کہ جنکی آمد سے مردے زندہ ہو رہے تھا ........

اور پھر ان میں سے ایک شخصیت آگے بڑھی اور اس نے الله کی شان بیان کرنا شروع کی الفاظ کا دریا ایسا کہ بہتا ہوا سیدھا دل کے سمندر میں گرتا چلا جا رہا تھا اور بہاؤ ایسا کہ کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ رہے یہ کیسا عجیب معاملہ تھا کہ پہلی بار دل کی سیاہی دھلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی قلب کے مندر میں لگے بت گرتے چلے جا رہے تھے اور لگتا تھا کہ جیسے کوئی مقدس زمین ہو جو کہیں کسی بنجر خطے کے اندر دبی پڑی ہو ہر طرف نور ہی نور تھا اور کانوں میں صرف ایک آواز

الله اکبر الله اکبر ..........

لگتا تھا کہ بہت ہی پرانی بات ہوئی

اور ......

اب تو یہ سیاہ لبادہ اسے اپنے جسم کا حصہ ہی محسوس ہوتا تھا اس کی ٹھنڈک ایسی کہ جیسے روح تک اتر جاوے اس سیاہ لبادے میں ملبوس وہ خود کو ایسا تصور کرتی کہ جیسے کعبے کی مقدس دیواروں سے سیاہ غلاف لپٹا ہوا ہو وہ عریاں جسم کہ جو کبھی لباس کا عادی ہی نہ تھا آج کسی انجانے کی نگاہ کے سامنے آنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا یہ کیسی تبدیلی تھی کہ ایک الله والے کی نگاہ پڑی اور کایا کلپ ہوئی آج بس میں سفر کرتے ہوے اس کے ہاتھ سے اچانک چادر ہٹ گئی ایسا محسوس ہوا کہ گویا آسمان سر پر گر پڑا ہو اور دنیا اندھیر ہو گئی ہو گھر آکر روتی رہی روتی رہی شوہر پریشان تھا کہ آخر ہوا کیا ہے اور اس کے منہ سے نکلتا مولانا مولانا .......

اور جب وہ مولانا سے پوچھ رہی تھی .........

کیا میرا الله مجھے اس بات پر عذاب تو نہ دے گا کہ میرا ہاتھ ننگا ہو گیا .........

ادھر مولانا روتے جاتے تھے
ادھر یہ روتی جاتی تھی ..........

نہیں میری بیٹی تجھے کیا عذاب ہوگا

ارے تیری توبہ تو وہ توبہ ہے کہ اگر سب میں بانٹ دی جاوے تو کفایت کرے .......

ایک غامدیہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں‌ حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں

اے الله کے رسول صل الله علیہ ......... !

مجھ سے گناہ ہو گیا
مجھ سے گناہ ہو گیا

مجھ پر حد لگائی جائے ......

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سوچ لے کیا کہتی ہے
سوچ لے کیا کہتی ہے

ابھی نہیں‌، تمھیں‌رجم کر دیا گیا ہے تو بچے کو دودھ کون پلائے گا؟

وہ پھر دوبارہ حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ صل الله علیہ وسلم ! ابن آس نے دودھ پینا چھوڑ دیاہے اور کھانا کھانے لگا ہے،

بچے کے ہاتھ میں‌روٹی کا ٹکڑا تھا .......

دلیل ساتھ لائی تھی

آپ صل الله علیہ وسلم حکم دیتے ہیں

الله کی حدود نافذ کرو
حد نافذ ہوتی ہے

رجم کرتے ہوئے اس کا خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر پڑا تو انھوں‌نے اسے برا کہا

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ» “ (مسلم: 1695 (23))
"باز رہو اے خالد! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں‌میری جان ہے بے شک اس نے ایسی توبہ کی کہ محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بخش دیا جائے۔"

مولانا اسے واقعہ سناتے ہیں اور اسے تسلی ہوتی ہے .......

نجانے کتنے سال گزر گئے
مولانا سے کوئی رابطہ نہ ہوا
اب تو خولہ اور خنساء بھی بڑی ہو رہی ہیں
مغرب کے اس گندے ماحول میں اپنی معصوم بچیوں کو دینی زندگی دینا بھی تو ایک جہاد ہے
بے شک یہ بھی ایک جہاد ہے

ایک روز عبدللہ خولہ اور خنساء کا والد کہیں سے خبر لاتا ہے

ایمان .... ایمان

تم نے سنا مولانا پر مصیبت آن پڑی
لوگ انھیں گمراہ کہ رہے ہیں

یا میرے مالک کیا ہوا
اس کا دل رک سا گیا
آخر ہوا کیا بولتے کیوں نہیں .....

خبر آئی ہے کہ مولانا ایک مشہور سیاسی شخصیت سے اس کے گھر کی عورتوں کی موجودگی میں ملے ہیں اور ان کے چہرے کھلے تھے .......

کیا مولانا گمراہ ہو گئے ........

وہ روتی جا رہی ہے
وہ سوچتی جا رہی ہے

مولانا تو ایک بے لباس گندی عورت سے بھی ملے تھے
تو کیا مولانا اس وقت بھی گمراہ تھے

تو پھر ایک گمراہ شخص نے ایک گندی عورت کو پاکیزہ کیسے بنا دیا
وہ سوال پوچھ رہی ہے .......

کیا کسی کے پاس ہے کوئی جواب .......... ؟

حسیب احمد حسیب
 
ایک متنازعہ واقعے کو اخلاقی جواز مہیا کرنے کے لیے مغربی سٹرپر، چرچ، بائبل، حضرت مسیح علیہ سلام اور ان کے حواریوں کو لے آنے کی کیا ضرورت تهی بهلا۔

کہیں بہتر ہوتا کہ مولانا موصوف کو لاہور کی ہیرا منڈی یا حیدر آباد کی شاہی گلی میں گهما پهرا لاتے۔ ان نمونہ جگہوں پر آباد مخلوق میں بهی مولانا کے کافی پرستار اور وہاں تبلیغ کے وسیع مواقع بهی.

آخری بات یہ کہ کہانی کا مرکزی کردار گندی عورت تهی جو آخر تک آتے آتے ناجانے کہاں گم ہو گئی اور مولانا چها گئے۔
 
ایک متنازعہ واقعے کو اخلاقی جواز مہیا کرنے کے لیے مغربی سٹرپر، چرچ، بائبل، حضرت مسیح علیہ سلام اور ان کے حواریوں کو لے آنے کی کیا ضرورت تهی بهلا۔

کہیں بہتر ہوتا کہ مولانا موصوف کو لاہور کی ہیرا منڈی یا حیدر آباد کی شاہی گلی میں گهما پهرا لاتے۔ ان نمونہ جگہوں پر آباد مخلوق میں بهی مولانا کے کافی پرستار اور وہاں تبلیغ کے وسیع مواقع بهی.

آخری بات یہ کہ کہانی کا مرکزی کردار گندی عورت تهی جو آخر تک آتے آتے ناجانے کہاں گم ہو گئی اور مولانا چها گئے۔
بہتر ہوتا کہ آپ تحریر کو مسلکی عصبیت سے باہر آکر ادب کے تناظر میں دیکھتے .........
حقیقت یہ ہے کہ یہ افسانہ مذہب سے متعلق ہمارے معاشرتی رویوں کی بے اعتدالیوں عکاسی کرتا ہے اور ایسا ہی ایک رویہ آپ کے کمنٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے ........
 
آپکی کوشش بہت اچھی تھی، میں ابھی اس محفل میں طفلَ مکتب ہوں، پر ایک رائے دوں گا، افسانہ کا عنوان تھوڑا تبدیل ہونا چاہئے ۔۔۔!
 
میری کم علمی یا لاعلمی۔:sad: میں سمجه نہیں سکا کہ یہ افسانہ لکهنے کی کوشش ہے۔ معذرت قبولیے
بہت شکریہ جناب۔
افسانہ ہمیشہ کسی واقعے کے تناظر میں لکھا جاتا ہے لیکن اس میں واقعاتی تفصیل کے بجائے تاثرات کی منظر نگاری کی جاتی ہے جہاں تک سوال ہے مختصر افسانے کا اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ایک سوال کو جنم دیتا ہے اس کی تکمیل در اصل سنگ میل ہوتی ہے جو منزل کی جانب صرف ایک راستہ دکھلاتی ہے لیکن انگلی تھام کر رہنمائی نہیں کرتی ......

ترقی پسند ادباء نے افسانے کو اپنے مقاصد یا اپنی فکر کی ترویج کے لیے استعمال کیا لیکن اسلام پسند مصنفین کے ہاں اس حوالے سے ایک عظیم خلاء موجود رہا ہے اسلیے ابھی افسانے کے خالص مذہبی رخ پر کافی کام ہونا باقی ہے .......

جہاں تک بات ہے عنوان یا کسی خاص فکر سے مناسبت ہونے یا نہ ہونے کی تو اس میدان میں لکھاری اور قاری ہر دو آزاد ہیں .......
.......
 
Top