گناہ سے نفرت دِلانے والا ایک مراقبہ

گناہ سے نفرت دِلانے والا ایک مراقبہ
اے نفس! گناہ چھوڑنے کو تیرا جی نہیں چاہتا، کیا تو موت کو بھول گیا؟ جو ہر لذّت کو چھڑا دے گی۔ تیرا رَبّ تجھے ہر لمحہ ایک نئی نعمت عطا کر رہا ہے اور تو بغاوت کے راستے پر چلنا کیوں پسند کرنے لگا ہے؟ وہ خدا تجھ سے کتنی محبت کرتا ہے، کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ ایک بار تو اُس ذات پاک کی طرف لوٹ کر تو دیکھ، تو اپنی گزشتہ زندگی پر خود ہی شرمندہ ہو جائے گا کہ ’’میں غلط تھا‘‘۔ (فیضِ مُرشد)
 
اپٹھے کام تے پیڑیا ں عادتاں انی آسانی نال پچھا نئیں چھڈدیاں۔۔۔۔۔۔یعنی گناہ کی لذت اور عاداتِ بد اتنی آسانی سے پیچھانہیں چھوڑتی ہیں
عادتِ بِد تاگُور نہ رَوَد ۔۔۔۔۔۔ یعنی بری عادت قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔
میرے خیال سے جس کی طبیعت میں جس کی طینیت میں جس کی فطرت میں خباثت ہو اس کو بدلنا ناممکن نہیں تو ممکن بھی نہیں ہے مراقبات وظائف اورنیک وصالح لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے وقتی طورپر تو فائدہ ہوجاتا ہے لیکن فطرت ہی تبدیل ہوجائے ۔۔۔۔ طرززندگی میں نمایاں تبدیلی نظر آئے ایسا تو کبھی ہوتے دیکھا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی نے دیکھا ہے تو اپنے مشاہدات قلم بند کیجئے
 
اپٹھے کام تے پیڑیا ں عادتاں انی آسانی نال پچھا نئیں چھڈدیاں۔۔۔ ۔۔۔ یعنی گناہ کی لذت اور عاداتِ بد اتنی آسانی سے پیچھانہیں چھوڑتی ہیں
عادتِ بِد تاگُور نہ رَوَد ۔۔۔ ۔۔۔ یعنی بری عادت قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔
میرے خیال سے جس کی طبیعت میں جس کی طینیت میں جس کی فطرت میں خباثت ہو اس کو بدلنا ناممکن نہیں تو ممکن بھی نہیں ہے مراقبات وظائف اورنیک وصالح لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے وقتی طورپر تو فائدہ ہوجاتا ہے لیکن فطرت ہی تبدیل ہوجائے ۔۔۔ ۔ طرززندگی میں نمایاں تبدیلی نظر آئے ایسا تو کبھی ہوتے دیکھا نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اگر کسی نے دیکھا ہے تو اپنے مشاہدات قلم بند کیجئے

جواب لکھنے پر معذرت، احقر آجکل کافی مصروف ہے۔
تبصرہ کیلئے جزاک اللہ خیرا۔۔۔
جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے ان کو فائدہ تو پیغمبرِ وقت بھی نہیں دے سکتے (اس بات کا ذکر قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے)، مثلاً کفارِ مکہ، ابو جہل اور ابو لہب ہی کو دیکھ لیجئے۔
اور گناہ کی بُری عادت اور حرام لذّت جلدی پیچھا نہیں چھوڑتی، لیکن اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقہ کو اختیار کیا جائے تو گناہ کی بُری عادت جلدی بھی چھوٹ جاتی ہے، اس پر قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل اور تاریخ میں درج واقعات شاہدِ عدل ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً حضرت بشر حافی اور حضرت فضیل بن عیاض رحمہما اللہ تعالیٰ کی ہی حیاتِ مباکہ دیکھ لیجئے کہ کیسے اولیاء اللہ کے سردار بنے۔ سب کچھ ممکن ہے، ہاں بعض دفعہ مشکل ضرور نظر آتی ہے لیکن ناممکن پھر بھی نہیں۔ یاد رکھئے! فطرت نہیں بدلتی، لیکن عادت ضرور بدل جاتی ہے۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ: لا تقنطوا من رحمۃ اللہ۔
سیّدی و مرشدی حضرت مجدّدِ زمانہ نور اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے کہ زندگی میں جو بھی گناہ ایک بار کر لیا، توبہ کرنے کے بعد ساری زندگی اس کا وسوسہ ضرور تنگ کرتا رہے گا،اسی لیے مجاہدہ موت تک کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اللہ والوں کی صحبت کی برکت سے یہ مجاہدہ نہایت آسان ہی نہیں بلکہ لذیذ تر بھی ہو جاتا ہے۔
یہ کہنا کہ ’’اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے سے وقتی طور پر فائدہ ہوتا ہے‘‘۔۔۔ لیکن یہ وقتی فائدہ بھی بہت کارآمد ہوتا ہے، اللہ والوں کی صحبت کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو متقی بننے کا نسخہ ربّ العالمین نے کلام اللہ میں صحبتِ اہل اللہ بتایا ہے، ان کے علاوہ بھی طریق ہیں مگر ’’صحبتِ اہل اللہ‘‘ ان سب کی روح ہے اور وہ سب معاون کی حیثیت۔
آپ حیاۃ الصحابہ، اولیاء اللہ کے حالاتِ زندگی اور تائبین کے حالات کا مطالعہ کیجئے معلوم ہو جائے گا کہ ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا اِن شاء اللہ العزیز۔
 
Top