مصحفی گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا ۔ مصحفی

فرخ منظور

لائبریرین
گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
تو زیرِ خاک نہ یہ بے قرار ٹھہرے گا

نہ بولو کوئی مرے جھگڑے میں، مَیں سمجھ لوں گا
مرے اور اس کے جو دار و مدار ٹھہرے گا

اگر یہ ہے ترے دامن کی حشر و نشر میاں
زمیں پہ خاک ہمارا غبار ٹھہرے گا

چلے بھی جا جرسِ غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرے گا

یہی ہے دل کا دھڑکنا مرے اگر تہِ خاک
تو کیا مزار پہ سنگِ مزار ٹھہرے گا

نگاہِ لطف سے تیری ہمیں توقع ہے
کبھی تو وعدۂ بوس و کنار ٹھہرے گا

تمہارے ناوکِ مژگاں کے سامنے خوباں
کہاں تلک یہ دلِ داغ دار ٹھہرے گا

تمہارے وعدوں پہ ہم کو تو اب نہیں ٹھہراؤ
مگر نیا کوئی امیدوار ٹھہرے گا

جو سیر کرنی ہے کر لے کہ جب خزاں آئی
نہ گُل رہے گا چمن میں، نہ خار ٹھہرے گا

خدنگ خوردہ دل آگے سے اُس کے جاتا ہے
خبر نہیں کہ کہاں یہ شکار ٹھہرے گا

شتاب آئیو ٹھہرا رکھیں گے ہم اس کو
جو جاں لبوں پہ دمِ انتظار ٹھہرے گا

اسے نہ دفن کرو سمجھو تو کوئی یارو
زمیں میں مصحفیِ بے قرار ٹھہرے گا؟

(غلام ہمدانی مصحفی)
 

برگ حنا

محفلین
اسے نہ دفن کرو سمجھو تو کوئی یارو
زمیں میں مصحفیِ بے قرار ٹھہرے گا؟

بہت خوب شیئرنگ ہے جناب
بہت شکریہ
 

حسان خان

لائبریرین
چلے بھی جا جرسِ غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرے گا
[مصحفی]
=============

یہ خالص کیفیت کا شعر ہے۔ کیفیت کے شعر سے مراد کم و بیش وہی ہے جس کے بارے میں بیدل نے کہا تھا کہ شعر خوب معنی ندارد۔ یعنی ایسے شعر میں کوئی مضمون نہیں ہوتا ، کوئی اہم معنوی نکتہ نہیں ہوتا، لیکن شعر دل پر اثر کرتا ہے۔
اس کے معنی یہ نہیں کہ مصحفی کا شعر بے معنی ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ معنی پر غور کیے بغیر بھی شعر اچھا معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، اب معنی پر توجہ دیجیے:
نسیم کے معنی اس ہوا کے بھی ہیں جو موسم بہار میں چلتی ہے، یا ایسے وقت میں جب موسم خنک اور فضا تازہ ہو، جیسے صبح کا وقت۔ نئی نئی بہار کی ہوا ہے، کلیوں کے کھلنے کا موسم ہے۔ جب ہوا گلشن سے گذرتی ہے تو کلیاں چٹک کر پھول بنتی ہیں۔ ان کی چٹکنے کی آواز گویا بانگ درا ہے جو باد نسیم کے قافلے کو چلتے رہنے، آگے بڑھتے رہنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ نئی بہار کا جوش ہے، جدھر جدھر نسیم گذرتی ہے، جرس کی آواز باد نسیم کو آگے بڑھنے پر مجبور کررہی ہے۔ لیکن اب شاید باد نسیم کو کچھ الجھن، کچھ پریشانی ہو رہی ہے کہ کتنے گلشن ہیں اور بہار کا نفوذ کہاں کہاں تک ہے جو میں چلتی جاؤں ، چلتی جاؤں۔ اس وقت کوئی اس سے کہتا ہے کہ (یا شاید باد نسیم کا دل اس سے کہتا ہے) کہ بہار کو قرار اور استقلال تو ہے نہیں۔ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی بہار اپنے اختتام پر پہنچے گی۔ تو پھر کیوں گھبراتی ہے کہ میں کہاں تک چلتی جاؤں؟ یہ بس چند لمحوں یا چند ساعتوں یا چند دنوں ہی کا تو کھیل ہے۔
[شمس الرحمن فاروقی]
 

طارق شاہ

محفلین
شتاب آئیو! ٹھہرا رکھیں گے ہم اُس کو
جو جاں، لبوں پہ دمِ انتظار ٹھہرے گا
کیا کہنے صاحب!

جناب فرخ منظور صاحب !
بہت خوب انتخاب پر بہت سی داد اور ہم سے شیئر کرنے پر تشکّر قبول کریں
بہت خوش رہیں
 
Top