گرودت

گرودت ہندوستانی سنیما کا بہت بڑا نام ہے۔ یہ نوجوان اداکار اور ہدایت کار جو اپنی جوانی میں ہی دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن اپنے پیچھے خوبصورت فلموں کی ایک فہرست بھی چھوڑ گئے۔ گرودت نے عام موضوعات سے ہٹ کر خوبصورت فلمیں بنائیں۔ اور ہندی سینما کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں کاغذ کے پھول اور پیاسا شامل ہیں۔ لیکن فلم پیاسا اپنی مثال آپ ہے۔ جو کہ ایک ایسے شاعر کی کہانی ہے جسے زندگی میں دنیا نے ٹھکرا دیا ہے۔ اس کی شاعری چھاپنے کو کوئی تیار نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی اپنی بیوی اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ جب اس کی خودکشی کی خبر عام ہوتی ہے تو اس کا مجموعہ کلام چھاپ دیا جاتا ہے اور یوں وہ شہرت کی بلندیاں چھونے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کے اپنے رشتے دار اور پبلیشرز خوب پیسہ کمانے لگتے ہیں۔ ایک پاگل خانے میں جب بے چارے شاعر کا پتہ چلتا ہے تو خود اپنے رشتے دار اوردوست اسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اپنی آمدنی اور پیسے کے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یوں جب یہ شاعر ایک دن دنیا کے سامنے زندہ سلامت واپس آتا ہے۔ تو کہرام بپا ہو جاتا ہے۔ لیکن شاعر خود ہی اپنی شناخت سے انکاری ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں رشتوں کی کوئی قدر نہ ہو اور جہاں مادیت پرستی نے لوگوں‌کو اندھا کر دیا ہو۔
فلم کی خاص بات ساحر لدھیانوی کے گیت ہیں۔ خاص کر وہ مشہور گیت جو کہ فلم کے آخر میں ہے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے۔

یہ محلوں یہ تختوں‌یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ہندوستانی سینما کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسے مجروح ساحر اور قتیل جیسے شاعر نصیب ہوئے۔ جنہوں نے فلموں میں صرف تفریح طبع کے لیے شاعری نہیں بلکہ اپنے مقصد اور نصب العین کو بھی گیتوں کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔

مختصر یہ کہ گرودت ایک بہت بڑا نام ہے۔ جس سے ہمارے آج کل کے بہت سے پاکستانی ناظرین بے خبر ہیں۔ لیکن جب بھی ہندی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی گرودت کانام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
 
Top